انتخابات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ پچھلی حکومت کی طرف سے رچایا گیا لوٹ مار کا بازار اب ایک بھیانک خواب کی طرح پیچھے رہ گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ روشن مستقبل کے حصول کیلئے ہم سب مل کر کمر بستہ ہو جائیں ۔سب سے پہلے اُن منصوبوں اور پروگراموں کو اولین ترجیح دی جائے جن کے ذریعے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں اور غربت ختم کرنے میں مدد دے سکیں۔ یہ سب پانے کیلئے ہمیں اپنی نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو اعلیٰ تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے اجاگرکرنا ہو گی۔ میں یہاں پر کچھ مخصوص اقدام گوش گزار کروں گا جن پر اگر نئی حکومت عمل کرے تو پاکستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
1۔ہمارے مستقبل کی کامیابی ایک اچھی قیادت پر منحصر ہے کسی بھی حکومتی مشینری میں تبدیلی لانے کا سب سے اہم قدم قابل اور ماہر صوبائی و وفاقی سیکریٹریوں کا صحیح انتخاب ہے۔ یہ سیکریٹری اعلیٰ سائنسدان، انجینئر اور اپنے شعبوں کے بہترین ماہر ہونے چاہئیں اور ہر وزارت میں ایک فکری گروہ (Think Tank)ہو جو ملک بھر سے اور بیرون ممالک سے اس شعبے سے متعلق اعلیٰ درجہ کے ماہرین پر مشتمل ہو۔ جن کی باقاعدہ مشاورت سے ترقیاتی منصوبوں کو فعال اور زود اثر بنایا جا سکے۔2۔پاکستان کا مستقبل معیاری تعلیم میں ہے، اور بہترین نظامِ تعلیم، معیاری تعلیم کی کلید ہے۔ اس وقت یہ نظام امیروں اور غریبوں کے طبقاتی اسکولوں میں بٹا ہوا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملکی سطح پر ایک ہی نظامِ تعلیم ہو اور ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے امتحانات بھی ملکی سطح پر ایک ہوں۔1960ء میں کوٹھاری کمیشن نے بھارت میں ایک نظام کو پورے ملک میں رائج کرنے کی ترجیحات پیش کیں جس کے نتیجے میں ایک نظامِ تعلیم کو پورے بھارت میں رائج کر دیا۔ ہمیں بھی اسی طرز پر عمل کرنا چاہئے اور نئی حکومت کو ملک کی مجموعی پیدوار (GDP) کا پہلے 5%اور پھر بڑھا کر7% تک حصہ اگلے پانچ سالوں میں مختص کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔ جناب مہاتر محمد نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا تھا کہ میں جیسے ہی ملائیشیا کا وزیر اعظم بنا اسی وقت میں نے تعلیم کو اولین ترجیح دینے کی ٹھان لی، یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا گزشتہ تین دہائیوں سے دوسری وزارتوں کے فنڈز کم کر کے اپنے بجٹ کا 25-30% حصہ صرف تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔3۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC)پر 2008ء سے 2012ء کے عرصے میں پے درپے حملے کئے گئے، میں نےHECکے چیئرمین کے عہدے سے 2008ء میں اُس وقت احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا جب HECکی طرف سے بیرون ملک وظیفے پر تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہزاروں پاکستانی طلباء کے وظائف ستمبر 2008ء میں روک دیئے گئے اور وہ فنڈزمختلف منصوبوں کی طرف منتقل کر دیئے گئے جو کہ بدعنوانی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ افسوس کہ ہمارے غریب طلباء کو بیرون ممالک میں فنڈز حاصل کرنے کے لئے مسجدوں تک میں بھیک مانگنی پڑی۔HEC کی خودمختاری کو قائم رکھنے کے لئے مجھے دو دفعہ ملک کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنا پڑا اور الحمدللہ میں دونوں دفعہ کامیاب ہوا۔ ماروی میمن (PML-N) اور سینیٹر حسیب خان(MQM) کے تعاون سے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سندھ میں پیٹشن دائر کر کے جیتنے میں کامیاب ہوا۔اگرچہHEC کو بچا لیا گیا لیکن اب بھی یہ مستقل حملوں کے زیرِ عتاب ہے۔ 9مئی 2013ء کو ایک نئے نام سے قائم وزارت ”وزارت برائے خدمات عوامی صحت، ضابطہ و ہم آہنگی“ کی طرف سے تازہ ترین حکم نامہ (جو کہ ملک کے اعلیٰ عدالتی فیصلے کی صریحاً خلاف ورزی تھی) شائع ہوا ہے جس کے مطابق ڈگریوں کی شناخت کی مد میںHEC کے اختیارات کو برخاست کر کے اس نئی وزارت میں منتقل کر دیا گیا ہے ۔ ایسا4مئی کے کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ احکامات کے بل بوتے پر کیا گیا ہے۔ کابینہ ڈویژن اور اس نئی وزارت کے دونوں سیکریٹریوں نے ان جعلی ڈگریوں کے حامل افراد کے دباؤ میں آکر سپریم کورٹ کے احکامات کی سنگین توہین کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا ان کے تحتHECکیلئے جاری کردہ اطلاع نامے کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور اس فعل کیلئے انہیں سخت سزائیں سنائی جانی چاہئیں، اسی طرح بدعنوان افسر شاہی کو قانون کا فرمانبردار کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ HECکی مکمل خود مختاری میں ہمارے ساتھ ہے۔ اب انہیں چاہئے کہ اس کی خود مختاری پر آنچ نہ آنے دیں اور وہ بجٹ جو انتقاماً گزشتہ حکومت نے آدھا کر دیاتھا اسے فوراً دگنا کر دیں اورHEC کو کیبنٹ ڈویژن سے منسلک کر دیں۔4۔ انجینئرنگ کا شعبہ ملکی معیشت کو ترقی دینے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے صنعتی مشینری، انجینئرنگ کا سامان گھریلو آلات گاڑی سازی ، بجلی کی اشیاء، کمپیوٹر، دفاعی آلات وغیرہ کی تیاری سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جب میںHEC کا چیئرمین تھا تو میں نے انجینئرنگ جامعات کے قیام پر خاص توجہ دی تھی ۔ بیرونِ ممالک کی انجینئرنگ جامعات کے الحاق سے پاکستان میں غیر ملکی ایجینئرنگ جامعات کے قیام پر ایک ملک گیر منصوبہ پر عمل شروع کیا گیا تھا جس میں جرمنی، آسٹریا، سوئیڈن، فرانس، اٹلی، چین، کوریا اور جاپان کی جامعات سے رابطہ کیا گیا تھا۔ شہباز شریف تو جرمن اور آسٹرین وفود سے بڑی گرمجوشی سے ملے بھی تھے اور اس پروگرام کی مکمل تائید بھی کی تھی۔ بدقسمتی سے گزشتہ حکومت نے اس شاندار پروگرام کو روک دیا تھا،اب نئی حکومت کو اس پروگرام کو پھر سے فوری بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
5۔نئی حکومت کو جدت طرازی اور کاروبارکو فروغ دینے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات پر عملدرآمد کرنا ضروری ہیں۔سرکاری و نجی شعبوں میں مقامی ٹیکنالوجی کی حمایت میں گردشی جدت طرازی فنڈکا قیام (15/ارب روپے)۔ فوری طور پر قومی سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں کی اصلاح اور ساخت سازی کی جائے (کنٹریکٹ تقرری کا نظام جو کہ کارکردگی کی بنیاد پر ہو رائج کریں)۔
غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) پر براہ راست ٹیکنالوجی ٹرانسفرکو لازمی جزو قرار دے دیں۔
”وینچر کیپٹل فنڈ“ سمیت مختلف ترغیبات کے ذریعے نجی شعبوں میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کریں۔عالمی سطح سے مسابقت رکھتی ہوئی ایک قومی ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پالیسی تشکیل دیں اور اسے نافذ کریں ۔غیر ملکی تعاون سے اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری کو فروغ دیں۔تمام اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کو طویل مدتی ٹیکس چھوٹ دی جائے (اسی طرز سے جس طرح میں نے 2001ء میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے آئی ٹی کی صنعت کو 15سالہ ٹیکس کی چھوٹ کا اہتمام کیا تھا 2001ء میں اس صنعت کی برآمد 30ملین ڈالر سالانہ تھی اب یہ بڑھ کر ایک ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر گئی ہے )۔
ٹیکنالوجی پارک اور اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کو قائم کرنے والی کمپنیاں قائم کی جائیں۔ٹیکنالوجی کے معیار کو بلند کرنے اور نجی شعبے کی تحقیق کو ترقی دینے کے لئے مراعات کی پیشکش کی جائیں(جیسا کہ کوریا چین، اور ملائیشیا میں کیا جاتا ہے)۔باقاعدہ ٹیکنالوجی پیش بینی مطالعے کے لئے ٹیکنالوجی کا تعین اور پیشن گوئی کرنے والا ادارہ قائم کیا جائے۔تکنیکی تربیتی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے بین الاقوامی سرٹیفکیشن کرائی جائے۔چند ترجیحی شعبوں میں اعلیٰ معیار کی افرادی قوت فراہم کرنے کے لئے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ممالک بھیجے جانے والے طالب علموں کی تعداد میں اضافہ کر کے کم از کم 2,000طلباء فی سال کر دیا جائے۔سائنس و ٹیکنالوجی پروگراموں کے لئے 2% GNP مختص کی جائے ۔
وزیراعظم کے تحت ایک قومی کمیٹی قائم کی جائے جو کہ متعلقہ وزارتوں ، نامور سائنسدانوں، انجینئروں، سیکریٹریوں اور نجی شعبوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔قومی کمیشن برائے بائیو ٹیکنالوجی اور قومی کمیشن برائے نینو ٹیکنالوجی کو بحال کیا جائے جسے گزشتہ حکومت نے ختم کر دیا تھا۔اُس تین سو صفحاتی مسودہ پر عمل کیا جائے جسے میری نگرانی میں ہزاروں ممتاز ماہرین، نجی شعبوں کے نمائندوں، سرکاری افسران، ماہرین اقتصادیات کی باہم مشاورت سے تیار کیا گیا تھا اور اسے کابینہ نے اگست 2007ء میں منظور کیا تھا۔پاکستان اقتصادی تباہی کے راستے پر کھڑا ہے۔ نئی حکومت کیلئے اس صورتحال سے نمٹنا ایک مشکل کام ہے۔ آج سے4دہائی پہلے کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا کی حکومتوں کو بھی اسی قسم کے چیلنجوں کا سامنا تھا لیکن تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کو ترجیح دے کر ایشین ٹائیگر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ہم بھی یہ مقام بآسانی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہمیں روشن خیال اور ایماندار قیادت حاصل ہو جو میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کرے۔