ہماری دنیا کو خوبصورت بنانے اور بنی نوع انسان کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں درخت سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج انسان کی بقا کو سب سے سنگین خطرہ موسمی تغیرات کی صورت میں درپیش ہے اور اس کا تدارک کرنے میں درختوں کا اہم کردار ہے۔ درختوں سے محبت کرنا اور اُن کا خیال رکھنا کئی اقوام کی تاریخی، تمدنی اور معاشرتی اقدار کا حصہ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے درخت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہیں، اسی وجہ سے اسلام میں درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ چیونٹیوں سے لے کر انسانوں، پرندوں اور جانوروں سب کی زندگیاں درختوں سے جڑی ہیں۔ جنگلات کی اہمیت مسلمہ ہے، گزشتہ چند برسوں سے اس حوالے سے دنیا بھر میں ایک نئی حساسیت نے جنم لیا ہے جس کے اثرات پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ماحولیات کا مسئلہ ساری دنیا کے لئے اولین ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ اس وقت ہماری زمین کے 30فیصد حصے یا چار ارب ہیکٹر پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ (UNFAO) کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں موجود 1.8کروڑ ہیکٹر رقبہ پر موجودہ جنگلات یعنی تین ارب سے سات ارب درخت سالانہ کاٹ دیے جاتے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ 37فیصد درخت ٹمبر مافیا کاٹتی ہے۔ دنیا میں جنگلات کا رقبہ گزشتہ 25سال کے دوران 4ارب 12کروڑ 80لاکھ ہیکٹر سے کم ہو کر 3ارب 99کروڑ 90لاکھ ہیکٹر ہو چکا ہے۔ 1990 سے 2015تک دنیا 12کروڑ 90لاکھ ہیکٹر رقبہ پر موجود جنگلات سے محروم ہوئی۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً تیس لاکھ افراد فضائی آلودگی کے باعث مر جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں 25فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رقبہ چار فیصد یا اس سے بھی کم رہ چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ماحولیاتی شعور میں کمی کی وجہ سے آج پاکستان میں جنگلاتی رقبہ سکڑ کر صرف 1.9فیصد رہ گیا ہے اور 1990سے 2015کے دوران 25برسوں میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ جنگلات کی کٹائی ہوئی ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ آٹھواں ملک ہے جہاں جنگلات کے رقبہ میں سالانہ سب سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک میں اس وقت جنگلات کا رقبہ ایف اے او کے مطابق 14لاکھ 72ہزار ہیکٹر ہے جو 1990میں 25لاکھ 27ہزار ہیکٹر تھا۔ جنگلات کے رقبہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں اس وقت 114ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں زیادہ گلیشئر پائے جاتے ہیں، بدقسمتی سے یہ برفانی پہاڑ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شہروں میں گرمی کا زور کم کرنے کے لئے ایک سادہ طریقہ زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے خطرات کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے 2013میں خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی کا آغاز کیا اور بون چیلنج عالمی مہم کیلئے خیبر پختونخوا نے جنگلات کی کٹائی کے باعث ہونے والے زمینی بگاڑ سے دو چار 3لاکھ 50ہزار ہیکٹر زمینی رقبے کی بحالی کا ہدف مقرر کیا جسے وزیراعظم کے بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت باآسانی حاصل کیا گیا ہے۔ منصوبے سے خیبر پختونخوا میں جنگلات میں 6.5فیصد اضافہ ہوا ہے جس کا بین الاقوامی خودمختار ادارے نے بھی اعتراف کیا۔ عالمی مہم بون چیلنج 2030میں پاکستان شامل ہو رہا ہے اور اس مہم کے تحت رضا کارانہ طور پر ملک میں 10لاکھ ہیکٹر رقبے پر مشتمل ایسی زمین کی بحالی عمل میں لائی جائے گی جہاں پر ماضی میں جنگلات کی بلا روک ٹوک کٹائی سے زمینی بگاڑ کے شدید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ملک میں 43فیصد آلودگی غیر معیاری تیل کی درآمد، ٹرانسپورٹ اور پاور سیکٹر میں اِس کے استعمال کی وجہ سے ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوسط عمر میں 2سے 5برس تک کمی آسکتی ہے۔ فضا میں گاڑیوں کے دھوئیں میں سلفر کا اخراج زمین کی زرخیزی کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس 12دسمبر 2020کو’’کلائمیٹ ایمبیشیس سمٹ‘‘ سے خطاب میں کہا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے توانائی کے قدرتی ذرائع پر انحصار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے مزید پاور پلانٹس کی تنصیب نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کلین انرجی کی جانب گامزن ہے، 2030تک مجموعی توانائی کے 60فیصد کو کلین انرجی اور قابلِ تجدید توانائی پر منتقل کرنے کا ہدف ہے، الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت 2030تک 30فیصد گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں الیکٹرونک گاڑیاں بنانے والوں کو 50فیصد سبسڈی دی جائے گی۔ شجر کاری آپشن نہیں ہے، ضرورت ہے اور اپنے بچوں کا مستقبل بچانے کے لئے درخت لگانے انتہائی ناگزیر ہیں۔ آج انسان کی بقا کو سب سے سنگین خطرہ موسمی تغیرات کی صورت میں درپیش ہے اور اس کا تدارک کرنے میں درختوں کا اہم کردار ہے۔ آئیے اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کریں اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنے محلے اور گلی کوچوں کو سر سبز وشاداب بنائیں۔