واشنگٹن: ایمی ولیمز
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ امریکا کے وسیع تر تعلقات کے اندازے کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کے چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کا ازسرنو جائزہ لے گی۔
2020 کے اوائل میں دستخط کیے گئے فیز ون تجارتی معاہدے نے امریکا اور چین کے مابین تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کو روک دیا تھا جس نے عالمی منڈیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور تجارتی سامان پر اربوں ڈالر کے ٹیرف لگے ۔
بڑے پیمانے پر محدود داائرہ کار سمجھے جانے والےاس معاہدے کی شرائط کے تحت چین نے سویابین اور توانائی جیسی امریکی مصنوعات کی خریداری میں نمایاں اضافے کا وعدہ کیا۔
چین ابھی بھی اپنے خریداری کے وعدوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے، تاہم معرف تجارتی تجزیہ کاروں نے سوال کیا کہ آیاامریکی مصنوعات کی طے شدہ مالیت کی خریداری کے وعدوں کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پرسی سیکریٹری جین ساکی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا جو بائیڈن پہلے مرحلے کے تجارتی معاہدے کو ابھی مؤثر سمجھتے ہیں، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی کی انتظامیہ نے جو کچھ بھی کیا اس پر نظرثانی کی جارہی ہے۔
جین ساکی نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ معاملات میں پیشرفت ہورہی ہے۔ہم ابھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آگے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے اور اپنے مفاد کے حساب سے یہ کام ایک بار پھر کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے مزید جاری رکھنے سے قبل اپنے اتحادیوں، ارکان کانگریس کے ساتھ ہم آہنگی اور فیصلہ سازی کررہے ہیں۔
اس معاہدے کی شرائط کے تحت چین نےتجارتی تنازع شروع سے پہلے2017 ء کے مقابلے میں 2021 کے آخر تک دو سال کی مدت میں 200 ارب ڈالر مالیت کے امریکی سامان اور خدمات کی خریداری پر اتفاق کیا ہے۔
چینی اور امریکی تجارتی اعداد وشمارسے پتہ چلتا ہے کہ معاہدے کے نفاذ کے ایک سال بعد بھی چین امریکی سامان کی خریداری کے غیرسرکاری طور پر طے شدہ اہداف سے بہت پیچھے ہے۔
گزشتہ ماہ کے اعدادوشمار کی بنیاد پر پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معاشیات کے تجزیہ کے مطابق اس کی ماضی کی بنیاد پر پیشنگوئی کے تحت چین کی جانب سے 58 فیصد امریکی برآمدات کی خریداری متوقع ہے۔
انسٹی ٹیوٹ نے بتایا کہ 173.1 ارب ڈالر کے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں تجارتی معاہدے میں کیے گئے خریداری کے وعدوں کے تحت چین نے دسمبر کے آخر تک 100 ارب ڈالر تک امریکی مصنوعات کی درآمدات کیں۔
یہ کمی بائیڈن انتظامیہ کے لئے ایک چیلنج پیش کرتی ہے جیسا کہ چینی درآمدات پر اربوں ڈالر کے امریکی محصولات برقرار رکھنے سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی چین سے متعلق تجارتی پالیسی کے کتنے حصے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرنا ہے۔
چینی حکام کے ساتھ امریکی تجارتی مذاکرات کی نگرانی کرنے والےڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ سطح کے تجارتی مذاکرات کار رابرٹ لائٹائزر نے آئی پی کا تحفظ میں تبدیلیوں اور جبری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے نئے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے رواں ماہ کہا کہ فیز1 معاہدے میں خریداری کے وعدوں سے کہیں زیادہ چیزیں شامل ہیں۔
بہرحال، صرف ڈونلڈ ٹرمپ کےصدارت چھوڑنے سے پہلے چین کو مزید ٹیرف کی دھمکیوں سے ہی نہیں یہ معاہدہ مستقل سیاسی دباؤ کا شکار ہے۔
نئی امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی نے رواں ماہ ایک خطاب میں کہا کہ ایک ابھرتے ہوئے اور ترقی کرتے چین کے ساتھ سخت مقابلہ ان کی معلومات میں سب سے اہم مسئلہ ہوگا۔