اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ’’سینیٹ کے انتخابات کیلئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے‘‘ کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کو طلب کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات میں بدعنوانی کوروکنے کیلئے پولنگ اسکیم طلب کرلی ہے جبکہ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کوئی قانون بھی کم نہیں کر سکتاہے ، شفاف انتخابات منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، چیف الیکشن کمشنر سے پوچھنا چاہتے ہیں، آج تک ووٹوں کی خرید و فروخت پر کتنے سینیٹرز نااہل ہوئے،سینیٹ کے انتخابات خفیہ ہوں لیکن شکایت پر جانچ ہونی چاہیے،بار کونسلز سیاسی جماعتوں کی پیروی کے بجائے آزادانہ موقف اپنائیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، خفیہ ووٹنگ کا اطلاق صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک ہوتا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ انتخابات والے قواعد کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق کیوں نہیں ہو تاہے ؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب تو انتخابی بدعنوانی کی ویڈیوز بھی سامنے آ رہی ہے،الیکشن کمیشن کو عدالت کو بتانا ہوگا کہ انتخابی عمل میں شفافیت کیسے یقینی بنائی جائے؟ بعدازاں عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت آج بروز منگل تک ملتوی کردی ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے پیر کے روز آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان ا ور دیگر فریقین پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے سابق دلائل کو برقرار رکھتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ پاکستان بار کونسل اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس ریفرنس کے حوالے سے اپنا اپناموقف جمع کرایا ہے، تاہم سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے الگ موقف اختیار کرتے ہوئے اس ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بارکونسلوں کاموقف سن کر شدید مایوسی ہوئی،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بارکونسلوں کو سیاسی جماعتوں کی پیروی کرنے کی بجائے آزادانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ بار کونسلیںنے ماضی میں آئین اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں، بارکو نسلوں سے کواپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ چیف الیکشن کمشنر کو طلب کرکے ان سے پوچھتے ہیںکہ انہوں نے حالیہ سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے کیا کیا اقدامات اٹھائے ہیں ؟ ہم چیف الیکشن کمشنر سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جمہوریت کی بقاء ہی شفاف انتخابات میں ہی ہے۔ دوران سماعت جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن ایک وفاقی ادارہ ہے جبکہ بلدیاتی حکومتیں صوبائی ادارے ہیں، صوبائی اسمبلیاں قانون سازی سے وفاقی ادارے کو پابند بناتی ہیں ، پارلیمنٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کرانے کیلئے ترمیم نہیں کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض اوقات عدالتی تشریح کی ضرورت ہوتی ہے، عدالت تشریح کرتی ہے اور پارلیمنٹ اس کے مطابق ترمیم کرتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ سندھ بار کونسل سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلوں کا مؤقف ہے کہ آئین کیخلاف کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بار کونسلوںنے اپنی قراردادیں ججوں کو بھی بھجوائی ہیں۔ انہوںنے ریمارکس دیئے کہ کسی مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں کو قراردادیں بھجوانا پروفیشنل رویہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ بار کونسلوں کا کام کہاں ختم ہوتا ہے؟ اور عدالت کا کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار کونسلوںکو سب سے زیادہ خطرہ سینیٹ میں اوپن بیلٹنگ سے ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سینیٹ کے انتخابات خفیہ ہوں لیکن شکایت پر جانچ ہونی چاہیے۔ انہوںنے ریمارکس دیئے کہ کوئی قانون بھی الیکشن کمیشن کے اختیارات کو ختم نہیں کرسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آئین انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے کا کہتا ہے تو الیکشن کمیشن ہر لحاظ سے بااختیار ہے، الیکشن کمیشن ا نتخابی عمل سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جمہوریت کی بقاء صرف اور صرف شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہی ہے، ماضی میں عدالتی احکامات کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیارات دیئے گئے تھے ، اوپن بیلٹنگ میں بھی ووٹ خفیہ طور پر ہی ڈالا جائیگا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ انتخابات والے قواعد کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق کیوں نہیں ہو تاہے ؟ عام انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لیتا ہے، عام انتخابات سیکرٹ بیلٹنگ کے ذریعے ہی منعقدہوتے ہیں لیکن کائونٹر فائل ہوتی ہیں، جب تنازع کھڑاہوتا ہے تو کائونٹر فائلوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ خفیہ ووٹنگ کا اطلاق ووٹ ڈالنے تک ہوتا ہے۔