• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلزپارٹی کی سیاست، آزمائشوں، آسائشوں، راحت، تکلیف، اقتدارکے غلام گردشوں میں رقص وسرود سے لے کر تختہ دار پر جھوم لینے جیسے واقعات سے عبارت ہے۔ 1967تا امروز اس جماعت نے زندگی وسیاست کا ہر رنگ وآہنگ دیکھا، اس جماعت کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ بانی جماعت ذوالقفار علی بھٹو، اُن کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو اور صاحبزادے شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو بھی سیاست کی نذر ہو گئے، یہ درست ہے کہ یہی خون اس جماعت کی آبیاری کے کام آیا لیکن ان فقیدالمثال اموات نے ملک و ملت کو کیا دیا؟ اس پر بلاشبہ ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی سیکولرا ور ترقی پسند جماعت کی اساس اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سرچشمہ عوام کے بنیادی نکات پر رکھی گئی، جبکہ روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش و مقبول عام سلوگن دیا۔ ان سطور میں ہم ’’جمہوریت ہماری سیاست‘‘ کا مختصر تجزیہ کریں گے ۔ بھٹو صاحب کی طلسماتی شخصیت اور سحر انگیز خطاب کی بدولت 1970کے انتخابات میں یہ جماعت 81نشستیں لے کر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی اکثریتی جماعت بن گئی۔ تاہم مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے عظیم کامیابی سمیٹتے ہوئے 160سیٹیں اپنے نام کر لیں، اعدادوشمار کے اس طلسم کدے نے پی پی کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، المیہ یہ ہوا کہ اکثریتی جماعت کو اقتدارمنتقل کرنے کی بجائے گویا یہ عجیب منطق اپنائی گئی کہ 160سے 81نشستیں زیادہ ہیں۔ بعدازاں نئے پاکستان میں 1973کے متفقہ آئین کی استواری اوربھارت میں قید 90ہزار فوجی و سویلینز کو رہائی دلانے کے کارنامے نے اس جماعت کے امیج کو سہارا دیا مگرجلدہی پیپلزپارٹی کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا،وہ نیشنل عوامی پارٹی(نیپ)جس کے قائد خان عبدالولی خان نے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے طورپرنہ صرف یہ کہ 1973کے آئین کو متفقہ بنانے میں کلیدی کردار اداکیا تھا بلکہ بھارت سے قیدیوں کی واپسی کیلئے اپنا اثر استعمال کیا تھا (شملہ جانے والے وفد میں نیپ کے مرکزی رہنما شامل تھے) اس جماعت پر پی پی دورحکومت میں دوسری مرتبہ پابندی لگی، پہلی مرتبہ پابندی آمر جنرل یحییٰ خان نے لگائی تھی، ساتھ ہی ساتھ نیپ کے 50سے زائد چوٹی کے رہنمائوں کو جیل میں ڈال دیاگیا، اس عمل نے پی پی کا جمہوری تاثر مجروح کیا، بھٹو صاحب کا یہ دور کس قدر جمہوری تھا، اس سے قطع نظر جب بھٹوصاحب کو پھانسی دی گئی تو وہ جاگیردار، ووڈیرے جو اپنے تحفظ اور سوشلزم کے نعرے کو خام ثابت کرنے کیلئے پی پی میں شامل ہو گئے تھے۔ ابتلا کے اس دور میں بھٹوصاحب کا ساتھ چھوڑ گئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو جب 1988میں برسراقتدار آئیں، اگرچہ انہیں بادل نخواستہ قبول کیا گیا تھا لیکن اُنہوں نے کمالِ جرات سے سیاسی عمل کی بحالی کا آغاز کیا،مارشل لاء دور میں گرفتار ہزاروں سیاسی قیدیوں کو نہ صرف یہ کہ رہائی دلائی بلکہ ممکنہ طور پر اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی، لاکھوں کو روزگار دیا، غریب کچی آبادیوں کو لیز دینے کا ان کارنامہ یادگار ہے۔جب وہ اکتوبر 1993میں دوسری مرتبہ اقتدارمیں آئیں، تو یہ دور مختلف کہانیوں کے زیر بار رہا۔ جمہوریت کے ساتھ اُن کی تاریخی کمٹمنٹ اُس وقت نظرآتی ہےجب شہادت سے قبل محترمہ بےنظیر بھٹو موت کو سامنے دیکھتے ہوئے پاکستان آتی ہیں۔ اس واپسی کا ہر قدم یہ ظاہر کررہا تھا کہ محترمہ اب ان کی حکومت ختم کرنے والے کردار کو بیچ چوراہے پر عیاں کرنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہیں لیکن یہی وہ وقت ہوتا ہے جب طاقتور اپنے اختیارات کو بلاشرکت غیرے ہاتھ میں رکھنے کیلئے برہنہ وارسے بھی نہیں کتراتا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد موجودہ دور شاید بہت کچھ عیاں کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔ تاہم اب محترمہ بے نظیر بھٹو نہیں ہیں۔ سابق صدر آصف زردای کے حوالے سے دیگر باتوں سے قطع نظر 18ویں ترمیم ان کے دور حکومت کا ایک ایسا لاثانی کارنامہ ہے کہ جس نے صوبوں کو وفاق سے کلی طور پر جوڑ دیا ہے، اس ترمیم پر عمل سے چھوٹے صوبوں کا وہ احساس محرومی ختم ہو سکے گا جس کا گلہ وہ وفاق و پنجاب سے کرتے رہے ہیں۔ سول بالادستی کیلئے پی ڈی ایم کی برپا تحریک کی کامیابی یا ناکامی کو بھی آصف زرداری کے کردار کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے، سینیٹ چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اور پی ڈی ایم کے فیصلے کے تحت مستعفی نہ ہونے سمیت مختلف امور کا آئے روز پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہاں فقط کہنا یہ ہے کہ موقع پرستی ایک ’’ضرورت‘‘ یا ایک فن صحیح لیکن اس کے حاملین تاریخ کے کوڑے دان میں سڑتے رہتے ہیں جبکہ گروہی، جماعتی وزاتی ضرورتوں پر ملک وملت کی ضرورتوں کو فوقیت دینے والے امر ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین