عمل سیاسی ہو ، غیر سیاسی یا انتظامی ،تبدیلی حکومت کے زیر سایہ کوئی ایک بھی مروجہ طریقہ نہیں ہوپایا ہے، اگرچہ حکومتی مشعل بردار اور اسکے حامی ہر عمل پر پہلی بار کا سابقہ لگا کر اسکا جھنڈا لہرنے کی مشق لایعنی کرنے میں مصروف ہیں،بلدیاتی اداروں کو توڑنے سے لیکر سینیٹ کے انتخابات تک عوام میں حکومتی کارکردگی کا بیانیہ دن بدن غیر مقبول ہوتا جارہا ہے، وفاقی وزیر داخلہ کے اساتذہ پر آنسو گیس کے ایکسپائر شیل ٹیسٹ کرنےکے بیان پر سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر سخت تنقید کی جارہی ہے ،انھیں بے حس تک قرار دیا جارہا ہے۔
مذہبی اور دیگر حلقے اس بیان پر انکے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں،مراد سعید اور فیصل واوڈاکے کیسوں بارے التوا کی پالیسی اختیار کرنے اور لیگی رہنمائوں کے خلاف روزانہ کی بناید پر سماعت کرنے سے انصاف کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں جس سے دنیا میں پاکستان نظام انصاف پر بڑے سوال اٹھ رہے ہیں، وزیر اعظم نے پہلے بتایا تھا کہ سینیٹر کا ریٹ 20 کروڑ روپے جبکہ اب 70 کروڑ روپے ہے جس سے ایک پیچیدہ صورتحال جنم لے چکی ہے، سینیٹ کے انتخابات میں کرپشن کےحوالے سے وزیر اعظم کی پہلی تقریر اور پی ٹی آئی کے ارکان کو پارٹی سے بیدخل کرنے کے واقعات کے بعد دوبارہ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ لیک شدہ ویڈیو انھوں نے پہلے نہیں دیکھی، اس پر سیاسی حلقے سخت تنقید کررہے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
رائے عامہ پر یہ امر کھل چکا ہے کہ پیسے کس نے دئیے، کس کو دئیے ، ویڈیو کیس نے اور کیوں بنائی ؟ اور ویڈیو عین انتخابات سے قبل کیوں ریلیز کی گئی ؟ سیاسی حلقوں میں یہ بھی بحث چھڑ چکی ہے کہ اس رسیدی ویڈیو کو انتخابات سے قبل ریلیز کرنے کے پیچھے بڑا سیاسی مقصد پنہاں ہوسکتا ہے، سیاستدانوں کو گالی دینے اور انھیں کرپٹ کہنے کی گردان میں اس قدر تیزی خومخواہ نہیں ہے اور نہ یہ چائے کے کپ میں برپا کیا گیا طوفان ہے۔
سیاسی حلقے اس عمل کو وزیراعظم کے اس بیان سے بھی جوڑ رہے ہیں جو انھوں نے متعدد بار دھرایا ہے کہ لانگ ٹرم پالیسیوں کی کامیابی کیلئے پانچ سال کافی نہیں ہوتے ہیں، وزیر اعظم مسلسل یہ پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ معاشی اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں، کرنٹ خسارہ ختم ہوچکا ہے اور برآمدات بڑھ رہی ہیں لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ پٹرول ، بجلی ، گیس، پانی کے یوٹیلیٹی بلوں میں مسلسل اضافہ کرنے کی پالیسی نے انکے ہی بیانیہ پرپانی پھیر دیا ہے۔
مہنگائی سے اور قوت خرید میں کمی نے عوام میں شدید بے چینی اور مایوسی پھیلا دی ہےجس سے مشترکہ فیملی سسٹم کا قصہ ہی پاک ہوگیا ہے کیا آئندہ بجٹ بھی صرف غریب ہی مارا جائے گا ؟ جبکہ حکومت بدستور اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ ہر قسم کی بے ضابطگی ، نااہلی اور کج فہمی پر مبنی پالیسیوں کے برے نتائج سابقہ حکومت پر ڈال پروہ اپنا بچائو کرسکتی ہے، اس پریشان کن صورتحال میں حکومتی نمائندوں نے کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے بغیر سیکورٹی عوامی مقامات پر جاناہی بند کردیا ہے، عوام کو دہرے مسائل کا سامنا ہے ،ایک طرف حکومت مہنگائی سے انکی جیبیں کاٹ رہی ہے تو دوسری طرف ڈاکو دن دیہاڑے عوام کو لوٹ رہے ہیں ، اس صورتحال میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں تو حکومت کو تاریخی شکست فاش ہوگی، سیاسی حلقے اس اندیشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ ملکی صورتحاک کی ابتری کے پیچھے ایک بڑے کھیل کی بساط بچھائی جاچکی ہے۔
معیشت کا حجم سکڑ نے کی وجہ سے معاشی نمو منفی میں جارہی ہے، سات ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کا کنٹیر بیانیہ کب کا فشوں ہوچکا ہے، وزیر خزانہ بھی اس خدشے کا یقینی اظہار کرچکے ہیں کہ نیا بجٹ خسارے اعظم بجٹ ہوگا ،کیونکہ پانچ ہزار ارب روپےکے لگ بھگ قرض لیناہوگا،یعنی دفاعی اخراجات بھی ادھار لیکر چلانا پڑیں گے،اور اگر دیوالیہ ہونےکا اعلان کرناپڑگیا تو یہ پہلی بار ہوگا کہ بغیر کسی جنگ کے کوئی ملک محض کسی شخصی نااہلی اور غلط پالیسیوں کے وجہ سے دیوالیہ ہوجائے۔
سیاسی حلقے اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مرحلہ وار سیاسی اور معاشی نظام کو اس قدر کمزور کیا جارہا ہے جس سے حکومت کا چلنا اور عوام کیلئے زندگی گزرانا بھی دگر گوں ہوجائے یہان تک کہ وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ کر بول اٹھیں کہ موجودہ پارلیمانی نظام لپیٹ دیں اوراسکی جگہ صدارتی یا کوئی اور نظام لایا جائے،ٹیکس ایمنیسٹی دینے کے باوجود کنسٹرکشن انڈسٹری کا پہیہ متوقع رفتار سے چلنا تو درکنار اس میں ہل جل کے بھی آثار نہیں سامنے آئے ہیں، ان حالات میں حقیقی گاہک کہاں سے آئیگا ؟