حرف و حکایت … ظفرتنویر ہم سبھی لوگ ٹیلی ویژن کے گرد گھیرا ڈالے ایک ایسا پروگرام دیکھ رہے تھے جو ہم سب کیلئے نیا بھی تھا اور دلچسپ بھی تھا پاکستان میں صرف ایک ہی ٹیلی ویژن اسٹیشن ہوا کرتا تھا اور وہ بھی بلیک اینڈ وہائٹ، ان دنوں اس ٹیلی ویژن پر ’’ضیاء محی الدین‘‘ شو کے عنوان سے ایک بڑا دلچسپ پروگرام ہوا کرتھا تھا، ضیاء محی الدین سے بھی ہمارے تعارف کا یہ پہلا ذریعہ تھا ویسے تو وہ ہالی ووڈ کی بعض فلموں اور خاص طور پر لندن ویسٹ اینڈ کے تھیٹر کی دنیا میں اپنا نام بنا چکے تھے، ضیاء محی الدین شو میں وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مہمان کی حیثیت سے بلاتے اور ہلکی پھلکی گفتگو کے ذریعہ اپنے ناظرین سے ان کا تعارف کرواتے۔ اس روز بھی ان کے شو میں آئے ہوئے مہمانوں میں ایک بڑی سے پگڑی پہنے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے، ہمیں بتایا گیا کہ اپنے ہم وطنوں کی خدمت کرنے کے اعتراف میں انہیں تمغہ خدمت مل چکا ہے نام تو ان صاحب کا چوہدری زمان علی تھا مگر مشکل یہ آرہی تھی کہ ضیاء محی الدین اردو میں بات چیت کر رہے تھے اور مہمان کی اردو کچھ خاص آتی نہ تھی وہ بات بھی اپنی مادری زبان (میرپوری) میں کرتے بہرحال کسی نہ کسی طرح کچھ میرپوری اور کچھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں چوہدری زمان علی نے بتایا کہ وہ جب 1930ء میں پہلی بار برطانیہ آئے تو انگریزی تو دور کی بات انہیں اردو اور پنجابی بھی صحیح طرح نہیں آتی تھی۔ لکھے پڑھے وہ تھے نہیں اس لئے اکثر اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے تھے لیکن ولایت کے یہ گورے اتنے اچھے تھے کہ اشاروں کنایوں میں میری بات سمجھ جاتے اور مجھے گھر تک چھوڑ آتے پہ پروگرام غالباً 1971ء میں ہوا تھا جب ضیاء محی الدین نے چوہدری زمان علی سے پوچھا کہ اب وہ گورے (وہ لوگ) کدھر چلے گئے ہیں تو بابا جی نے انتہائی پریشانی سے جواب دیتے ہوئے سر جھکا لیا اور کہا ’’خورے مری گئے‘‘ (شاہد مر گئے ہیں) چوہدری زمان علی (تمغۂ خدمت) کو لوگ عموماً باوا زمانہ کے نام سے جانتے ہیں ان کا خیال مجھے اس اخباری کلپ کو دیکھ کر یاد آیا جو میرے بھانجے شبر آغا نے مجھے پاکستان سے بھیجا ہے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ میں نے ضیاء محی الدین شو بھی ان ہی کے گھر بیٹھ کر دیکھا تھا اس اخباری کلپ میں بہت سی باتیں حقائق سے ملابقت نہیں رکھتیں باوا زمانہ اس ملک میں اس وقت آئے جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا وہ بمبے (آج کے ممبئی) میں بحری جہازوں میں کام کرتے تھے اور اپنے ایک ایسے ہی بحری سفر کے باعث ممبئی سے یہاں پہنچ گئے اور پھر ایسے یہاں بسے کے ان کا جسد خاکی ہی واپس اپنی مٹی میں مل سکا وہ ایک ان پڑھ اور لکھنے پڑھنے سے قاصر تھے لیکن وہ اپنے ہموطنوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ہروقت کمربستہ رہتے۔ اپنے وطن اور اپنی اہلیہ سے عشق کے بعد اگر انہیں کسی سے پیار ہوا تو وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کیلئے انہوں نے گھر گھر جاکر پیپلز پارٹی کو مضبوط بنایا۔ ان کی اہلیہ مارگریٹ ایک آئرش خاتون تھیں۔ اس کے باوجود کے کبھی بھی چوہدری زمان علی سے کھل کر کچھ کہہ بھی نہ سکیں کہ مارگریٹ کو میرپوری نہ آتی تھی اور وہ انگریزی سے نابلد تھے وہ تمام زندگی ان کے ساتھ جڑی رہیں، گھر آنے والے ان کے مہمانوں کی خدمت کرتی رہیں۔ پیار اور محبت کا یہ رشتہ صرف مارگریٹ سے ہی نہیں بلکہ اپنے وطن سے بھی تھا 1965ء کی جنگ ہوئی تو باوازمانے نے اپنے ہم وطنوں کی مدد سے پاکستان کیلئے ایمولینس گاڑیوں کا ایک بیڑہ پاکستان بھیجا 1966ء میں جب اس وقت کے پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا تو ایک طرف برطانیہ نے صدر پاکستان کا فقیدالمثال استقبال کیا بلکہ برطانیہ نے نہ صرف انہیں بکنگھم پیلس میں عشائیہ دیا بلکہ صدر ایوب کو اپنے ساتھ شاہی بگھی میں بٹھا کر لندن کی شاہراہوں کا چکر بھی لگایا یہ سب کچھ دیکھ کر باوا زمانہ کی خوشی کی انتہا نہ تھی اس وقت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر آغا ہلالی تھے جنہوں نے چیدہ چیدہ پاکستانیوں،کشمیریوں کو ہائی کمیشن میں صدر مملکت سے ملنے کی دعوت دی تھی بلائے گئے پاکستانیوں میں دوسروں کے علاوہ برطانیہ میں اردو صحافت کے بانی محمود ہاشمی اور باوا زمانہ بھی تھے۔ رشید بنگش اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایوب خان کو چاچا زمانہ کی پاکستان کیلئے خدمات سے غالباً آگاہ کردیا گیا تھا رسمی گفتگو کے بعد صدر پاکستان نے پوچھا کہ بتائیں میں آپ کیلئے کیا کرسکتا ہوں، باوا زمانہ نے پہلے تو جناب صدر کا اپنی زبان میں شکریہ ادا کیا اور پھرمطالبہ کیا کہ ’’ماڑے گراں نے سارے لوکاں کی ایتھے بلائو، پاسپورٹ وی ویئو تے فیس وہ نہ کنو‘‘ وہاں بیٹھے لوگوں میں غالباً محمود ہاشمی ہی ان کی زبان سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے بتایا کہ زمان علی چاہتے ہیں کہ ان کے گائوں (مولہڑہ کینال) کے لوگوؒں کو پاسپورٹ جاری کئے جائیں اور ان سے ان کی فیس بھی نہ لی جائے۔ صدر مملکت نے اپنے اسٹاف کو یہ مطالبہ نوٹ کرنے کی ہدایت کی اسی موقع پر باوا زمانہ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ لیڈز فونصلیٹ (اس وقت بریڈ فورڈ قونصلیٹ لیڈز میں ہوتھا تھا) میں تعینات قونصلر کو تبدیل کیا جائے کیونکہ وہ پاکستانیوں کو تنگ کرتا ہے اور اس میں میٹر کی طرح پیسے ڈالنے پڑتے ہیں باوا زمانہ کے مطالبہ پر قونصلر کا تبادلہ اسی روز کردیا گیا بعد میں جب حکومت پاکستان کی طرف سے باوا زمانے کو سیکڑوں کے حساب سے پاسپورٹ جاری کروانے کی سہولت ملی تو چوہدری زمان علی نے آج کے لیڈروں کی طرح وہ پاسپورٹ فروخت نہیں کئے بلکہ گھر گھر جاکر اور ضرورت مندوں کو تلاش کرکے انگلستان بلوایا آج بھی برمنگھم اور لندن کے فنبری پارک میں ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ہوں گے جن کے برطانیہ آنے اور آباد ہونے کا سبب چوہدری زمان علی بنے۔ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ جب وہ ایوب خان کو ملے تو مصافحہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ میں پانچ، دس پونڈ دینے لگے تو غصہ سے ایوب خان کا پہلے سے سرخ و سپید چہرہ مزید سرخ ہوگیا لیکن صورتحال اس وقت سنبھل گئی جب ایوب خان کو پتہ چلا کہ یہ رشوت نہیں ’’پوچھ‘‘ ہے جو میرپوری اپنے ہر آنے والے مہمان کو دیتے ہیں بعد میں حکومت پاکستان نے باوا زمانہ کی خدمات کے اعتراف میں جو تمغہ خدمت انہیں دیا تھا بابے نے وہ تمغہ اس وقت واپس کردیا جب ان کے محبوب رہنما چیئرمین بھٹو کو پھانسی دی گئی آج نہ باوا زمانہ ہے نہ اس کی طرح کا کوئی اور مخلص کمیونٹی لیڈر ہے، اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف یہ خیال کہ شاید اب ہمارے سارے لیڈر بھی ’’خورے مری گئے‘‘۔