• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے پوری طرح یقین ہو چکا تھا کہ میں راستہ بھٹک چکا ہوں اور اپنی ہر طرح کی کوشش کے باوجود میں اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ میں اس وقت چین کے دارالحکومت بیجنگ میں موجود تھا اور اپنے میزبان کے منع کرنے کے باوجود پہلے روز ہی بیجنگ دیکھنے کی خواہش کو روک نہ سکا اور اکیلے ہی ہوٹل سے نکل کر بلند و بالا عمارتوں اور جدید شاپنگ مالز کے جھرمٹ میں گم ہو چکا تھا ، چینی زبان سے عدم واقفیت نے مزید مشکل میں ڈال دیا تھا کہ اچانک انگریزی زبان میں تحریر نظر آئی جس سے پتہ چلا مذکورہ عمارت چینی زبان سکھانے کا اسکول ہے جہاں غیر ملکی چینی زبان سیکھنے آتے ہیں، اس عمارت کے باہر کھڑی ایک نوجوان خاتون سے میں نے اپنے ہوٹل کا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو وہ نہ جانے کیا سمجھیں اور مجھے اسکول کے اندر لے گئیں، شاید وہ مجھے اپنے اسکول کا نیا شاگرد سمجھ بیٹھی تھیں جو چینی زبان سیکھنے کی خاطر ان کے اسکول میں داخل ہونے کا خواہشمند ہے۔ اندر پہنچتے ہی میرا بھرپور استقبال کیا گیا لیکن میرا سوال کوئی بھی سمجھنے سے قاصر تھا، ایک انجان ملک میں ہونے اور راستہ بھٹک جانے کے باوجود میں بالکل پریشان نہیں تھا کیونکہ میں ایک دوست ملک میں موجود تھا جہاں کے لوگ پاکستان سے دوستی پر ناز کرتے ہیں، جس ملک نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے ، جس ملک کی ترقی کو پاکستان اپنے لئے رول ماڈل سمجھتا ہے ، میں ایسے ملک میں کس طرح پریشان ہوسکتا تھا جبکہ میرے پاس اپنے ہوٹل اور میزبان اور پھر سفارتخانے کا فون نمبر موجود تھا لہٰذا جس وقت بھی میں چاہتا اپنوں کے پاس پہنچ سکتا تھا ، یہ سب سوچ کر میں اب چینی زبان سیکھنے کے اسکول میں مزید دلچسپی لینے لگا تھا ، کافی کوشش کے بعد میں اسکول کی انتطامیہ کو یہ بتانے میں کامیاب ہوچکا تھا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے جس پر میرا انتہائی والہانہ جذبات کے ساتھ استقبال کیا گیا ، اسکول کی تمام انتظامیہ کو ایک کانفرنس روم میں بلا لیا گیا تھا جبکہ پرنسپل کے عہدے پر فائز خاتون بھی کانفرنس روم میں پہنچ چکی تھیں جو کافی بہتر انگلش بھی بول رہی تھیں جن کے بقول چینی قوم میں پاکستان کو بہت پسند کیا جاتا ہے تاہم ماضی میں جس طرح چینی قوم میں پاکستان سے محبت کے نغمے ٹی وی پر دکھائے اور سنائے جاتے تھے وہ اب پہلے سے کم ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ چین کی نئی نسل پاکستان کے حوالے سے اتنا نہیں جانتی جتنا پرانی نسل جانتی ہے لیکن یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ کوئی پاکستانی ہمارے ہاں مہمان کے طور پر آئے ، تھوڑی دیر میں کیمرہ مین کانفرنس روم میں داخل ہوا اور ایک پاکستانی مہمان کے ساتھ چینی میزبانوں کی تصاویر اتروانے کا سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا، مجھے بھی پاکستان سے باہر صرف پاکستانی ہونے کی وجہ سے اتنی تکریم و احترام حاصل کرکے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہو رہا تھا لیکن کاش یہ تکریم و احترام پوری دنیا میں ہمیں پاکستانی ہونے کے سبب حاصل ہوتا تو اور زیادہ فخر کی بات ہوتی پھر مجھے اسکول کی پرنسپل کی گاڑی میں ہی ہوٹل تک ڈراپ کرایا گیا جہاں میرے میزبان دوست صابر جان ٹیپو اور میرے ساتھ آئے ہوئے پاکستانی نژاد جاپانی شہری ناصرناکاگاوا ہوٹل میں شدت سے میرے منتظر تھے ، پردیس میں میرے اچانک غائب ہونے پر ان کی آنکھوں میں بے چینی اور پریشانی جبکہ میری آنکھوں میں اطمینان اور چہرے پر مسکراہٹ موجود تھی ،صابر جان ٹیپو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں پچھلے پندرہ سال سے مقیم ہیں جبکہ ان کی اہلیہ کا تعلق بھی چین سے ہی ہے ، صابر جان ٹیپو کے والد کا تعلق چین سے ہی ہے جنہوں نے اب سے پانچ دہائیوں قبل بہتر معاش کی خاطر اور ایک اسلامی ملک میں رہائش کی خاطر ہجرت کی اور راولپنڈی میں رہائش اختیار کی جبکہ صابر جان ٹیپو نے پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ اپنے والد کے آبائی وطن چین میں بہتر معاش کی خاطر رہائش اختیار کی اور اب بیجنگ میں اپنی چینی اہلیہ اور ایک بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ صابر جان ٹیپو چند گھنٹے کی گپ شپ کے بعد شام کے کھانے پر ملاقات کا وعدہ کر کے رخصت ہوئے تو اس دفعہ میرے پاکستانی نژاد جاپانی دوست کو بیجنگ دیکھنے کا شوق ہوا ،شام ہوچکی تھی کچھ ہی دیر کے بعد کھانے کا وقت بھی ہونے والا تھا لہٰذا ہم ٹہلتے ہوئے کسی حلال ریستوران کی تلاش میں روانہ ہوئے ، چین کے حوالے سے سستا ملک ہونے کا تاثر اب ختم ہوچکا تھا، بیجنگ میں ہر شے انتہائی مہنگے داموں فروخت ہو رہی تھی ،کوئی بھی شے جاپان کے مقابلے میں کسی بھی طرح کم نہ تھی ہر چیز جاپان میں موجود اشیاء کی قیمتوں کے برابر فروخت ہو رہی تھی۔ بیجنگ میں بہترین سڑکیں ، بلند و بالا عمارتیں، اس بات کا پتہ دے رہیں تھیں کہ چین اب دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت میں تبدیل ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک بھی یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ مستقبل میں چین امریکہ سے بھی بازی لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیجنگ میں ہر طرف ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی بھرمار نظر آتی ہے ، ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے دفاتر قائم کرلئے ہیں، چینی زبان پوری طرح سے سیکھنے پر توجہ دی جا رہی ہے، پاکستانی طالب علم بھی بڑی تعداد میں چین آرہے ہیں، چین میں میڈیکل کی تعلیم پاکستان کے مقابلے میں کافی سستی ہونے کے باعث بڑی تعداد میں طالب علم چین کا سفر کر رہے ہیں، پاکستانی لڑکیاں بھی چین میں تعلیم حاصل کر رہی ہے ، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو والدین اپنی لڑکیوں کو اکیلے اسکول اور کالج بھی نہیں جانے دیتے ان کو اب چین میں اکیلے بھیجا جارہا ہے تاہم پاکستانی طالب علموں کو چین میں کافی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، کئی طالب علموں کے مطابق سب سے اہم مسئلہ چین کی میڈیکل یونیورسٹیوں سے حاصل کی جانے والی ڈگریوں کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تسلیم نہیں کرتی جس کے باعث چھ سال تک ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پاکستان واپس آکر ہمارے پاکستانی طالب علم ڈاکٹر کہلانے کی قانونی حیثیت حاصل نہیں کر پاتے، اس مسئلے سے چین میں پاکستانی سفارتخانہ بھی آگاہ ہے تاہم اس مسئلے کو پاکستان میں حل کرانے کے لئے چین میں پاکستانی سفارتخانہ وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جس کی توقع پاکستانی طالب علم سفارتخانہ پاکستان سے کرتے ہیں جبکہ چین میں بھارتی طالب علم اور کاروباری ادارے بھی بہت تیزی سے جگہ بنا رہے ہیں تاہم پاکستان وہاں کہیں نظر نہیں آتا، انہی حالات پر بات چیت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اندازہ ہوا کہ ہم بیجنگ میں ہی کسی فوڈ اسٹریٹ میں داخل ہوچکے ہیں جہاں مختلف اقسام کے ریستورانوں کی بھرمار تھی جو بہت خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔
کچھ ہی دور چلے تھے کہ ناصر ناکاگاوا نے ایک ریستوران کی جانب اشارہ کیا جہاں ریستوران کے مرکزی حصے پر بڑا بڑا کلمہ طیبہ تحریر تھا جس سے اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ ریستوران مسلم اور حلال ہے اندر داخل ہوتے ہی اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ ایک معروف بار بی کیو ریستوران ہے لہٰذا ایک ٹیبل بک کراکر فون کے ذریعے اپنے چین میں مقیم دوست محمد صابر جان ٹیپو کو بھی یہیں مدعو کرلیا ،کچھ ہی دیر میں صابر جان ٹیپو بھی ہمارے ساتھ ہی موجود تھے جس کے بعد بہترین اور خوش ذائقہ کھانے کا دور شروع ہوچکا تھا کہ سامنے والی ٹیبل پر چھ چینی نوجوان آکر بیٹھے اور کچھ شور شرابے کے ساتھ کھانے پینے میں مشغول ہوگئے میرے ساتھ بیٹھے صابر جان ٹیپو نے ہمیں ان کی جانب متوجہ ہونے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈرورلڈ کے لوگ لگتے ہیں لہٰذا ان کی طرف زیادہ دھیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مجھے چین میں پاکستان کی مقبولیت کا اندازہ ہو چکا تھا لہٰذا میں نے ویٹر کو آرڈر کر کے کچھ مشروبات اپنے چینی دوستوں کی ٹیبل پر بھجوا دیئے ویٹر جب ان کے پاس مشروبات لیکر پہنچا تو میں نے صابر جان سے چینی زبان میں پاکستان کی طرف سے تحفہ کہلوادیا، جس کے بعد ہمارے چینی دوستوں نے اس تحفے کا انتہائی والہانہ جواب دیا اور تمام چھ چینی نوجوان ہماری طرف آچکے تھے، ایک چینی نوجوان نے اپنی پینٹ کی جیب سے ایک چھوٹے سائز کا چاقو نکالا اور پہلے تو پاک چین دوستی کے نعرے لگائے اور پھر چھوٹا سے چاقو لہراتے ہوئے کچھ کہا جسے صابر جان ٹیپو نے ترجمہ کرتے ہوئے بتایاکہ یہ نوجوان کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور بھارت پاکستان کو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں اور چین اور چینی عوام پاکستان کی حفاظت کریں گے پھر کافی دیر تک پاک چین دوستی کے نعرے اس ریستوران میں سنائی دیتے رہے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک دوست ملک کے عوام ہمارے ملک کی حفاظت پر تلے ہوئے ہیں اور ایک ہمارے اپنے لوگ ہی جو پاکستان کی جڑیں کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں اور غیروں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں کتنا فرق ہے چینی بھائیوں میں اور اپنے بھائیوں میں۔
تازہ ترین