احمد فراز
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر ترا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے