آج مقابلے کی دوڑ میں پس ماندہ ممالک اپنی غربت و جہالت کے سبب طاقت وَر ممالک کے اجارہ داری، سرمایہ داری نظام میں کچلے جارہے ہیں۔ موجودہ دَور میں صنعتی مسابقت کی خاطر قومی ذہانت کی تعمیر کے لیے تخلیقی و سائنسی نقطہ نظر کی اشد ضرورت ہے کہ عالمی کارپوریٹ سرمائے کامقابلہ انفرادی سرمائے کے ذریعے ناممکن ہے۔ایسے میں پبلک سیکٹر اور گڈگورنینس ہی عالمی کارپوریٹ سرمائے کے مقابلے کے قدرتی متبادل ہیں۔
سرمائے کے نیو ورلڈ آرڈر نے روس کے حصّے بخرے ہونے کے بعد ایشیا، امریکا اور جنوبی امریکا کے بیش تر ممالک کو عدم ادائیگیوں اور خساروں کی وجہ سے معاشی ابتری اور شدید غربت سے دوچار کردیا ہے، جس کے سبب افراطِ زر کے تمام عوامل سمیت منہگائی، بے روزگاری اور پس ماندگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی لیے جاگیردارانہ اور شکستہ و گم راہ جمہوریت ہر ملک میں پسپا ہورہی ہے۔ جب تک دنیا میں صنعتی تخلیق کاعمل متوازن نہیں ہوتا، عالمی سماج کامتوازن جمہوری ارتقا ناممکن ہے۔
اس وقت کورونا کی وبائی صورتِ حال کے باوجود دنیا میں امریکا کی بالادستی قائم ہے۔ امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ لپ مین کا، جو صحافی اور تشہیری امور کے ماہر بھی ہیں، کہنا ہے ’’ہمیں خود کو بھٹکتے ہوئے ریوڑ (عوام) کے شوروغل اور احتجاج سے محفوظ رکھنا ہوگا۔‘‘ اس کی وضاحت دنیا کے معروف دانش وَر، نوم چومسکی نے اپنی کتاب ’’میڈیا کنٹرول‘‘ کے ایک مضمون ’’تماشائی جمہوریت‘‘ میں یوں کی ہے۔ ’’لپ مین، امریکا میں صحافیوں کا ڈین ہے، اس کا نظریہ ہے کہ ریاست پرجمہوریت کے ذریعے قبضے کے بعد عوام کو جس طرف لے جانا ممکن ہو، لے جانا چاہیے۔ کیوں کہ انہیں اپنی منزل کا علم نہیں ہوتا۔ ان میں کئی طبقات ہیں، ایک طبقہ ہنرمند پروفیشنلز کا ہے، جسے بیورو کریسی کہتے ہیں، اس کا تیار شدہ اتفاق رائے، پروپیگنڈے کے ذریعے عوام پر چالاکی سے مسلّط کرنا ہے۔‘‘
نوم چومسکی نے اسے تماشائی جمہوریت سے تعبیر کیا ہے، یعنی ’’ہمیں منتخب کرو، پھر تماشا دیکھوکہ ہم کیا کرتے ہیں۔‘‘ اس نے عوام کو تماشائی سے تشبیہہ دی ہے۔ کرونی کپیٹل ازم (اقربا پروری پر مشتمل ارکانِ اسمبلی کی اصطلاح) کے نفاذ کے بعد ساری دنیا میں عوام کو جمہوریت کے نام پربے وقوف بنایا جارہا ہے۔ مغرب میں مختلف لابسٹ اپنے کرونی منتخب کرواکے اپنے مفادات کے تحفّظ کو یقینی بناتے ہیں۔ اسی تناظر میں اکنامسٹ لکھتا ہے ’’جمہوریت کے ساتھ کیا غلط ہورہا ہے، جو21ویں صدی میں پسپا ہورہی ہے۔‘‘
دراصل عوامی دانش وَروں اور تجزیہ نگاروں کا اجتماعی و اجمالی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ ’’کارپوریٹ سرمایہ داری نے کرونی کیپٹل ازم سے مل کر جمہوری ارتقا کا راستہ روک لیا ہے۔‘‘ جمہوریت کے معنی آئین، قانون اور پارلیمان کی بالادستی ہے، جب کہ سرمایہ داری، عالمی اجارہ داروں کی طاقت کا مقصد ’’جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس‘‘ ہے۔ تاہم، اس مرتبہ ریوڑ نہیں بلکہ سفید فام ٹرمپ کے حامیوں نے وائٹ ہائوس پر حملہ کرکے دنیا کو بتادیا کہ جمہوریت اس کے لیے مذاق ہے۔
مغرب کے تجزیہ نگار مایوسی سے لکھتے ہیں کہ یوکرین نے سیاست کا پانسا پلٹ دیا ہے، جس سے یورپی یونین کے ساتھ روابط کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ بیلا روس میں اورنج انقلاب نہ آسکا۔ اِدھر مصر میں بھی عرب بہار کو آنے سے روک دیا گیا، کیوں کہ مصر میں مُرسی منتخب ہوگئے تھے۔ امریکی سامراج کی ہدایت پر فوج نے مداخلت کرکے مُرسی اور جمہوریت کا تختہ الٹ دیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ مغرب کا روس کے صدر، ولادیمر پیوٹن کے بارے میں کہنا ہے کہ جب تک پیوٹن انتخابات میں فاتح ہے، وہاں کنٹرولڈ جمہوریت چلتی رہے گی۔
بورس نیکولائی وچ یلسن(Boris Nikolayevich Yeltsin) جسے روس کو سرمایہ دارانہ خطوط پر چلانے کو کہا گیا، لیکن وہ ایسا نہ کرسکا، تو اس نے سابق کے جی بی کے سربراہ، ولادیمر پیوٹن کو حکومت دے دی۔ جس کے بعد ہی سے روس استحکام کی جانب گام زن ہوا۔ عوام کی بھی خواہش تھی کہ آٹو کریٹک حکومت قائم ہو، نہ ہی کرپٹ حکمران سامنے آئیں، تاہم وہاں کوئی ایسا لیڈر نہیں، جو ان خصوصیات پر پورا اترسکے اور روس کے بجائے مغرب کا حامی ہو۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روس مغرب کو کیسے اپنے سر پر بٹھانے کی حماقت کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عرب بہار یا اورنج انقلاب کے ذریعے جمہوریت بحال نہ ہوسکی، تو مغرب نے راگ الاپنا شروع کردیا کہ جمہوریت کو کیا ہوگیا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ امریکا نے جمہوریت کو منڈی کی اکانومی کے حوالے کرکے ہزاروں لابسٹ کو اجازت دی ہے کہ وہ سیاست میں اپنی مرضی کے گھوڑے دوڑائیں اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم سے بینکاروں اور سرمایہ داروں کو 2008ء کے مالیاتی انہدام سے بچائیں۔ اس کے لیے امریکی حکومت نے انہیں 700ارب ڈالر کا پیکیج دیا، جس سے فائدہ اٹھانے والے عناصر نے ایک دوسرے کو بونسز دیئے اور خسارہ پورا کرکے ٹیکس ادا کرنے والے عوام کو پھر لُوٹنے میں مصروف ہوگئے۔
واضح رہے کہ ایسا جمہوری عمل چلانے والا امریکا ہی ہے، جس کا عراق پر حملے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا، تو اس نے کہا کہ ہم آمر صدام سے عراقیوں کی جان چُھڑوانے کے بعد جمہوریت متعارف کروانے آئے ہیں۔ تو ظاہر ہے، اس طرح کے جھوٹے دعووں اور ہتھکنڈوں سے جمہوریت تو پسپا ہوگی۔ صرف یہی نہیں، افغانستان میں بھی نیٹو افواج کو اسی قسم کا ٹاسک دے کر بھیجا گیا، جس کے بعد سے پاکستان مشکلات سے دوچار ہے۔
پھر یہ دیکھیے کہ ٹیکس چوروں اور این جی اوز کے بارے میں اکنامسٹ لندن، ’’مائیکرو پاور‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لابسٹ کے ذریعے جمہوریت چلانے والوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ’’چین کا جمہوریت، جہاں کمیونسٹ پارٹی حکمران ہے، مکمل کنٹرول ہے اور وہ معاشی طور پرکام یاب ہے۔‘‘ اسی موضوع پر یہ مشاہدہ بھی سامنے آیا کہ امریکا جب ترقی کررہا تھا، تو 30سال میں اس کا معیارِ زندگی دگنا ہورہا تھا، جب کہ یہی ترقی اب چین دس سال میں کررہا ہے، جس سے ثابت ہوگیا کہ20ویں صدی کی جمہوریت کو سرمایہ داری نظام چوپٹ کرگیا۔ اس تناظر میں کیے گئے ایک عالمی سروے کے مطابق، چین میں کمیونسٹ نظام سے 85فی صد لوگ مطمئن ہیں، جب کہ امریکا میں سرمایہ داری نظام سے صرف 31فی افراد مطمئن نظر آتے ہیں۔
اب اگر چین کا ماڈل ویتنام، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا میں کام یاب ہوتا ہے، تو گلوبلائزیشن کے ذریعے لُوٹ مارکے بعد عالمی تجارتی تنظیم اور آئی ایم ایف کا کیا ہوگا؟ چین جنگ کے بجائے ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ اور سی پیک کے ذریعے ایشیا، افریقا اور مشرقِ وسطیٰ میں معاشی ترقی کے پراجیکٹس پر کام کررہا ہے، جس سے پرامن بقائے باہمی کے تحت ترقی کا نیا معیار متعارف ہورہا ہے، لیکن سرمایہ دار، عالمی اور مقامی اجارہ دار، جاگیردار اور سردار، جمہوریت کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے، نہ ہی طاقت وَر طبقے عوام کی شرکت کو جمہوریت اور اپنے مفادات کے لیے اچھا سمجھتے ہیں۔ چناں چہ وقفے وقفے سے پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ ہوتا رہا، جس کے نتیجے میں موروثی سیاست دان باری باری آمروں کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے۔
اِدھر بھارت میں سیکولرازم کو چھوڑ کر33فی صد ووٹ سے مسلّط ہونے والے مودی، کشمیری اور دیگر مسلمانوں پرمظالم ڈھاکر جمہوریت کو فروغ دینے کا راگ الاپ رہا ہے، جب کہ اُدھر مغرب کے دانش وَر کہتے ہیں ’’جمہوریت پسپا کیوں ہورہی ہے؟‘‘ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت اپنے بچّوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اب تو صرف اشرافیہ اور طاقت ور طبقے ہی اپنے بچّوں کے مستقبل کافیصلہ کرتے ہیں۔ نتیجتاً جمہوریت سے غربت بڑھ رہی ہے، قرضے، ذخیرہ اندوزی، بے روزگاری، بھوک، افلاس اور بیماریوں کے ساتھ اسمگلنگ اور اسٹاک مارکیٹس میں جوا اور سٹّے بازی فروغ پارہی ہے۔
امریکا کا،وینزویلا اور دیگر لاطینی امریکی ممالک میں کشت وخون کے ذریعے اپنی مرضی کی جمہوریت مسلط کرکے وہاں کے وسائل لُوٹنا کیسے بھولا ہوگا۔ ہوگو شاویز اگرچہ عوامی طاقت کے ذریعے برسراقتدار آئے۔ تاہم، انہیں بھی امریکا نے عدم استحکام سے دوچار رکھا اور پھر مغرب کے دانش وَر کہتے ہیں کہ جمہوریت دشوار ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ بھارت، جہاں دنیا کے سب سے زیادہ غریب بستے ہیں، وہاں عورت کی سب سے زیادہ تذلیل کی جاتی ہے۔ وہاں کی جمہوریت ہندوتوا کے نازی ازم اور انتخابات تک محدود ہوکے رہ گئی ہے۔ جنوبی افریقا میں نیلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز سے صرفِ نظر کرکے جمہوریت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، تویہ بھی تاریخِ اقوامِ عالم کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی نو آبادیاتی نظام کا بھی خاتمہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں ایشیا اور افریقا کے بہت سے ممالک آزاد ہوئے، لیکن ہوا کیا؟ بریٹن وڈ اور واشنگٹن اتفاق کے فلسفے کے تحت نیو ورلڈ آرڈر کو آئی ایم ایف، عالمی بینک اور عالمی تجارتی تنظیم کے تحت گلوبلائزیشن کےنام سے مسلّط کردیاگیا۔ 20ویں صدی کی جمہوریت اجارہ داریوں کے خلاف لڑتی رہی۔ جب کہ یورپ میں بادشاہت کے خلاف، پس ماندہ ممالک میں سامراج کے حامیوں، جاگیرداروں اور سرداروں کے خلاف اور عصرِ حاضر میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور استبداد کے خلاف لڑتے لڑتے تھک کر پسپا ہورہی ہے۔
جب کہ معاشرے کی سماجی تنظیم کو نیو ورلڈ آرڈر نے چھین لیا۔ غربت اور امارت میں انتہائی فرق کے باعث دنیا بھر میں امریکا نے دہشت گردی کے ذریعے مزید تباہی پھیلائی۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان میں کرپٹ عناصر جمہوریت کو اپنے مفادات کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سماج میں کرپشن کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور ایسی بیمارثقافت سے جنم لینے والی جمہوریت بھی بیمار جمہوریت کہلاتی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام نے صنعتی نظام کےساتھ مل کر عالمی سطح پر معاشی ناہم واریاں پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پس ماندگی کی آڑ میں امریکا نے بھی دہشت گرد پیدا کیے، تاکہ دونوں طرف ہتھیاروں کی خرید و فروخت جاری رہے۔
جس طرح امریکا کے راک فیلر اور دوسرے سرمایہ داروں نے دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر اور اس کے خلاف لڑنے والوں کو تیل اور اسلحے کی ترسیل جاری رکھی، اسی طرح جنگ کے بعد سرد جنگ میں بھی چند یورپی ممالک نے فرد کا آئینی حق محفوظ رکھا۔ اس لیے یورپی ممالک میں جمہوریت معاشی اور سیاسی بحرانوں سے بچتی بچاتی کام کررہی ہے، لیکن ریگن، تھیچر کے معاشی نسخے اور گلوبلائزیشن کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو برآمدات اور درآمدات کے منفی فرق سے قرضوں میں ڈبودیا، اس انارکی کی صورت میں کبھی ڈالرکے ذریعے جمہوریت اور کبھی آمریت کے ذریعے پاکستان جیسے ممالک کو معاشی اور اخلاقی طور پرتباہ کیا گیا ہے۔
آزاد منڈی میں منافعے، سود اور سٹّے بازی کے ذریعے امیرکی جیت اور غریب کی ہار، تاریخ کے جبر کی صورت اختیار کرلیتی ہے،لیکن جمہوریت جبر کی صورت ختم کرنے میں ناکام رہی۔ چناں چہ مال دار ممالک کا صنعتی سرمایہ اور مالیاتی سرمایہ یک جا ہونے کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک مزید بے بس ہوتےگئے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت دنیا بھر میں پسپا ہورہی ہے اور پارلیمان میں بیٹھے ارکان ’’لپ مین‘‘ کے فارمولے پرچل کرلوگوں کو گم راہ کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی اجارہ داروں نے جمہوریت کو مسخ کرکے ’’ایک شخص، ایک ووٹ‘‘ کے نظریے کو ’’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے لیے عالمی سطح پرکوئی تیار نہیں، تو پھر میڈیا اور سیاست دان عوام سے یہ کیوں پوچھتے ہیں کہ وہ کس قسم کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں اور کس قسم کا جمہوری معاشرہ چاہتے ہیں؟ عوام یقیناً ایسا جمہوری معاشرہ چاہتے ہیں، جس میں ان کی شرکت ہو، ان کے پاس ذرائع ہوں، جن کے باوصف وہ اپنے روزمرّہ کے معاملات اور انتظامی امور میں شریک ہوسکیں اور اطلاعات کےتمام ذرائع تک ان کی رسائی ممکن ہو، معاشی سطح پر مسّرتوں کی تقسیم منصفانہ ہو، مینوفیکچرنگ کلچر میں شراکت اور برآمدی تجارت میں اضافہ ہو۔
جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرکے زرعی اصلاحات لائی جائیں۔ ٹیکس چوروں کا محاسبہ کرکے ایسا نظام رائج کیا جائے، جس کی بنیاد سائنسی خطوط پر ہو۔ خیرات کے ذریعے غیر سرکاری تنظیموں کو بطور ایجنٹ استعمال نہ ہونے دیا جائے، صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لیے فزیکل کلچرکوفروغ ملے۔ کنزیومر ازم، کریڈٹ کارڈز کلچر، دھوکا دہی کا خاتمہ کرکے سائنس کے اعلیٰ وارفع کلچر کوسامنے لایا جائے اور ان اقدامات کو ممکن بنانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریک راہوں سے نکلیں کہ جن پرچل کر سوائے ٹھوکروں کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔