کراچی (ٹی وی رپورٹ) صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے رائے لینا ہماراآئینی حق ہے، 58(2)B کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ، اٹھارویں ترمیم ایک ایسا ہتھوڑا تھا جو صدر کے ہاتھ میں تھا اور وہ جب چاہتے حکومت تحلیل کردیتے ،ماضی میں میرے دور سے تین گنا زیادہ آرڈی نینس جاری ہوئے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے مجھے اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں ملا، اوپن بیلٹ پر بحث پارلیمنٹ کے بجائے ٹی وی پر ہورہی ہے ۔ ایک انٹرویو میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین لگانے کے لئے قطار میں لگا ہوا ہوں مگر ابھی مجھے ویکسین نہیں لگی ہے ویکسین اسی وقت لگواؤں گا جب میرا نمبر آئے گا ،ہر معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ویکسین نہیں لگواتے امریکا جیسے ملک میں یہ حالات ہیں کہ اشرافیہ قطاریں توڑ کر ویکسین لگوانے کے لئے آگے جانا چاہتے ہیں تاہم میری خواہش ہے کہ پاکستان میں عوام میں اتنا شعور ہو کہ وہ قطار کو نہ توڑیں کیونکہ یہ ویکسین رسک نہیں بینفٹ ہے جس کے لئے قطار نہیں توڑنا چاہئے ۔اس سوال کہ صدر پاکستان کے آرڈی نینس پارلیمنٹ کی بالادستی کی نفی کرتے ہیں کہ جواب میں صدر مملکت نے کہا پی ٹی آئی کے ڈھائی سالہ دور کے اندر جتنے آرڈی نینس نکلے ہیں پچھلے ادوار میں اس سے تین گنا یا پانچ گنا زیادہ آرڈی نینس نکل چکے ہیں، انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں تصادم کی کیفیت کی وجہ سے قانون پاس نہیں ہوتا تو آرڈی نینس پیش کرنا پڑتا ہے ،سو ڈیڑھ سو ایسے قوانین ہیں جن کے پاس ہونے کا میں منتظر ہوں۔