• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ اوپن بیلٹ کیس، کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ووٹ خفیہ بھی رہے اور پتا چل جائے کس کو ڈالا گیا، سپریم کورٹ

کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ووٹ خفیہ بھی رہے اور پتا چل جائے کس کو ڈالا گیا، سپریم کورٹ


اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن کیلئے اوپن بیلٹ طریقہ کار سے متعلق قانونی و آئینی رائے کیلئے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے۔

اس پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ووٹ خفیہ بھی رہے اور پتہ چل جائے کس کو ڈالا گیا ، سینیٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ نشستوں کی تعداد میں فرق ووٹ فروخت کرنا نہیں ، اگر سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے، متناسب نمائندگی میں نشستیںکم زیادہ ہو سکتی ہے، جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہوگی قانون اپنا راستہ بنائیگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگرآج کیس مکمل نہ کیا تو3 مارچ کو سینٹ الیکشن ممکن نہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے بار کونسلوں کے دلائل نہ سننے کی استدعا مسترد کردی۔ 

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحیٰی آفریدی پر مشتمل لارجر بینچ نے منگل کو صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اور آئرلینڈ کا آئین ایک جیسا ہے، وہاں الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے، اس نقطہ پر آپ کو سننا چاہیں گے، آئرش سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئرلینڈ میں لوئر ہائوس الیکشن پاپولر ووٹنگ سے منعقد ہوتے ہیں، پاپولر ووٹ خفیہ ہوتے ہیں، شہری ووٹرز کا حق کبھی اوپن نہیں ہوتا، آئرش سپریم کورٹ کے فیصلے میں شہری ووٹ کی بات کی گئی ، پاکستان میں بھی شہری کا ووٹ خفیہ رکھا جاتا ہے، اپرہاؤس کا الیکشن ڈائریکٹ نہیں ہوتا۔

پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ رولز صدارتی انتخابات کیلئے الیکشن کمشنر کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں، شیڈول 2 کے باوجود صدارتی انتخابات کیلئے رولز بنائینگے، میرا یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سینیٹ الیکشن بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ 

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ رولز آئین کے تحت بنے ہیں، رولز صدارتی الیکشن کا اختیار دیتے ہیں، الیکشن ایکٹ کیلئے بنے رولز کی حیثیت آئینی نہیں ، فاضل وکیل نے کہا کہ سینیٹ کبھی تحلیل نہیں ہوتی، ارکان ریٹائرڈ ہو تے ہیں۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے۔ فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینیٹ میں بھی ملے، جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو گی وہاں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، شواہد کے بغیرنشستوں کی تعداد میں فرق کو ووٹ فروخت کرنا نہیں کہا جاسکتا۔

تاہم اگر بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے، رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے سے پہلے کے مراحل ہیں، پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے، کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا؟ ووٹ ڈالنا ثابت ہوگا تو ہی معلوم ہوگا رقم الیکشن کے لیے دی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ رہتی ہے، عوام کا حق ہے کہ سینیٹ الیکشن شفاف اور کرپشن سے پاک ہوں، کسی فریق کو بھی سینیٹ الیکشن میں شفافیت پر اعتراض نہیں ،اختلاف رائے صرف الیکشن کو شفاف بنانے کے طریقہ کار پر ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ کوئی پیسے لیتا پکڑا گیا تو کوئی شواہد بھی ہوں گے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہاں ویڈیو آچکی ہے وہاں کوئی کارروائی ہوگی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ کونے میں کھڑے ہو کر بات کریں تو گواہ کہاں سے آئے گا؟ ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہو سکے کس کو کس نے ووٹ دیا؟ 

رضا ربانی نے کہا کہ آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جا سکتا ہے ؟ فاضل وکیل نے کہا کہ رشوت کسی کو ووٹ نہ ڈالنے کے لیے بھی دی جاسکتی ہے، جو پیسے ہی اس بات کے لے کہ ووٹ نہیں ڈالوں گا تو کیسے پکڑیں گے؟ صرف ووٹ ڈالنا نہیں رقم لینا بھی جرم ہے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ ہی نہ ڈالا جائے تو شناخت کی ضرورت نہیں، کوئی ووٹ نہ ڈالے تو پیسہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کے اطلاق کا ہے،میں کل اپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا ، فاروق نائیک نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں پیپلز پارٹی (پارلیمنٹرینز )کی وکالت کروں گا۔

اٹارنی جنرل نے اس معاملے سے متعلق وکلاء تنظیموں کی درخواستوں کی سماعت سے متعلق اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بار کونسلوں کا سیاسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں،صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت کیلئے کسی دوسرے کے دلائل سننا لازمی نہیں، عدالت کل میرا جواب الجواب سن کر اپنی رائے دے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریفرنس پر کارروائی مکمل کر ے گی ، اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے بار کونسلوں کے دلائل نہ سننے کی استدعا مسترد کردی۔

تازہ ترین