• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈسکہ میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 75کے ضمنی الیکشن میں بعض پولنگ اسٹیشنوں کے متنازعہ نتائج کی ابتدائی تحقیقات کے دوران الیکشن کمیشن کی تین رکنی انکوائری کمیٹی کے روبرو منگل کو انتخابی عملے کے بیانات ریکارڈ کئے گئے جن سے معاملے میں الجھاؤ ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔ اب کیس کی مزید سماعت جمعرات 25فروری کو ہوگی جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر حتمی فیصلہ کریں گے۔ مسلم لیگ ن کا مطالبہ ہے کہ 23پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائڈنگ افسروں کے لاپتہ ہونے اور دوسری بےقاعدگیوں کے بعد سارا الیکشن ہی مشتبہ ہو گیا ہے اس لئے پورے حلقے میں پولنگ دوبارہ کرائی جائے۔ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ پریزائڈنگ افسر نتائج جمع کراچکے تھے اس لئے ری پولنگ کا کوئی جواز نہیں، نتائج کا اعلان کیا جائے ۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹر بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلان سے قبل اس کی کوئی قانونی ضرورت نہیں لیکن میں پھر بھی اپنے امیدوار سے گزارش کروں گا کہ ان پولنگ اسٹیشنز پر جن کے متعلق حزب اختلاف واویلا کررہی ہے دوبارہ پولنگ کرانے کی درخواست دے دیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ آزادانہ اور شفاف انتخابی عمل کے لئے کوشاں رہے ہیں مگر بدقسمتی سے دیگر جماعتوں میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ہم شفافیت چاہتے ہیں اسی لئے سینٹ کے انتخابات میں اوپن بیلٹ کا تقاضا کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو درمیان کا راستہ اختیار کرنے کا جو مشورہ دیا ہے اس کی اصابت اپنی جگہ مگر الیکشن کے روز ڈسکہ کے اس انتخابی حلقے میں جو لاقانونیت دیکھی گئی اس کی مکمل چھان بین بھی انصاف کا تقاضا ہے۔ ہوائی فائرنگ کے علاوہ ایک دوسرے پر براہ راست گولیاں بھی چلائی گئیں جس سے دونوں پارٹیوں کا ایک ایک کارکن جاں بحق ہوگیا۔ لڑائی جھگڑے کے دوسرے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ پھر پہلے ایک پریزائڈنگ افسر کو ووٹوں کا تھیلا اُٹھائے پولنگ اسٹیشن سے باہر جانے کا منظر ٹی وی چینلز پر لوگوں نے دیکھا۔ اس کے بعد رات گئے ووٹوں کے تھیلوں سمیت 20پریزائڈنگ افسروں کے لاپتہ ہونے اور تلاش بسیار کے بعد صبح چھ سات بجے واپس آنے کی اطلاعات آئیں جس پر الیکشن کمیشن نے بھی ووٹوں میں ردوبدل کا شبہ ظاہر کیااور الیکشن کا ریزلٹ روک دیا۔ انکوائری کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مختلف وجوہات کی بنا پر پولنگ اسٹیشنوں سے چلے جانے والے زیادہ تر افسر انتخابی نتائج رات ساڑھے تین بجے تک جمع کرا چکے تھے۔ کچھ نے صبح چھ سات بجے جمع کرائے۔ انکوائری کمیٹی نے اس حوالے سے بدھ کو تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ یہ تصدیق بھی کی گئی ہے کہ متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں میں سے 4کے نتائج کلیئر ہیں۔ جمعرات کی سماعت میں ان دعوؤں اور تضادات کی پڑتال کی جائے گی اور تمام ریکارڈ کے جائزہ کے علاوہ انتخابی عملے سے مزید پوچھ گچھ بھی کی جا سکتی ہے جس کے بعد حقائق اور انصاف کی بنیاد پر جو بھی فیصلہ کیا جائے گا فریقین اسے تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے لیکن پاکستان میں انتخابات کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں کوئی بھی الیکشن غیرمتنازعہ یا جھگڑے فساد سے خالی نہیں رہا۔ ہارنے والے تو دھاندلی کے الزامات لگاتے ہی ہیں۔ جیتنے والے بھی مخالفین پر ناجائز ہتھکنڈوں سے ان کے ووٹ چرانے کی شکایت کرتے ہیں۔ اور کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا الزام گھڑ لیتے ہیں۔ اس مرتبہ ایسا کوئی الزام نہیں لگا۔ اس طرح کی شکایتوں کا ازالہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمام اسٹیک ہولڈرز جامع انتخابی اصلاحات پر متفق ہو جائیں اور یہ کام جتنا جلد ممکن ہو، کر لینا چاہئے۔

تازہ ترین