میں اپنی صحافتی زندگی کے پچھلے تین چار عشروں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کور کرتا رہا ہوں لہٰذا میرا مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بڑا قریبی رابطہ رہا اور اس کی سیاست سمجھنے کا بڑا موقع ملا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’’ناراض‘‘ رہنما چوہدری نثار علی خان جنہوں نے بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے اور پچھلے اڑھائی سال سے گوشہ نشین ہو گئے ہیں، ان کا محدود لوگوں سے رابطہ ہے۔
صرف ان کے حلقۂ انتخاب کے چیدہ چیدہ لوگ ان سے رابطے میں ہیں۔ ملاقاتیوں کی ایک طویل فہرست ان کے پولیٹکل سیکرٹری کے پاس پڑی ہے لیکن وہ کسی سے ملاقات کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو انٹرویو دیتے ہیں۔ ان کی ’’پُر اسرار خاموشی‘‘ افواہوں کو جنم دیتی ہے، اس پر طرفہ تماشا یہ کہ وہ بھی ان افواہوں کی تردید کرنے کی بجائے انجوائے کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے میں ملکی سیاست میں کچھ اہم واقعات پیش آئے جو پاکستان میں سیاسی منظر کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جب میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ شمیم اختر کی وفات پر چوہدری نثار علی خان میاں شہباز شریف سے اظہار تعزیت کے لئے جاتی امرا گئے تو انہوں نے اس کے لئے اس دن کا انتخاب کیا جس روز مریم نواز جنوبی پنجاب کے دورے پر تھیں۔
میاں شہباز شریف سے تعزیت سے قبل خواجہ سعد رفیق نے چوہدری نثار علی خان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں کوئی اور مسلم لیگی رہنما مدعو نہیں تھا۔
ظہرانے کے بعد جاتی امرا میں فاتحہ خوانی کے بعد میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ایک گھنٹہ سے زائد ’’ون آن ون‘‘ ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو تو منظر عام پر نہیں آئی تاہم مسلم لیگی ذرائع نے بتایا کہ چوہدری نثار علی خان لندن میں میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کرکے اظہار تعزیت کریں گے۔
میاں شہباز شریف نے بھی لندن میں پیغام بھجوا دیا تھا کہ چوہدری نثار علی خان کے فون کا رسپانس دیا جائے، تاحال اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ چوہدری نثار علی خان نے میاں نواز شریف کو فون کیا ہے یا نہیں۔
البتہ اس دوران سیاسی منظر نامے پر اچانک ہمارے دوست سینیٹر محمد علی درانی نمو دار ہوئے جن کی کوٹ لکھپت جیل میں میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے ان کی ملاقات انتظامیہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوئی اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کے پاس پیر صاحب پگاڑا کا پیغام لے کر گئے ہیں لیکن واقفانِ راز کا کہنا ہے کہ ان کی ملاقات بڑوں کی اشیرباد سے ہوئی۔
اس کے بعد ان کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی لیکن وہ اگلے روز اچانک فیض آباد پہنچ گئے جہاں چوہدری نثار علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی۔
پہلے تو دونوں اطراف سے اِس ملاقات کی تصدیق نہیں کی گئی پھر خود ہی چوہدری نثار علی خان کے پولیٹکل سیکرٹری نے ملاقات کی تصدیق کر دی۔ معلوم نہیں سینیٹر محمد علی درانی چوہدری نثار علی خان کیلئے کس کا پیغام لے کر گئے تھے لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ کسی نہ کسی سطح پر کچھ ہو رہا ہے۔
اس پر طرفہ تماشا یہ کہ چوہدری نثار علی خان جو پچھلے اڑھائی سال سے کسی مسلم لیگی لیڈر سے ملاقات نہیں کر رہے تھے وہ اچانک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 4رکنی وفد جس میں رانا تنویر حسین، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور شیخ روحیل اصغر شامل تھے، سے ملاقات کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس ملاقات سے قبل مسلم لیگی رہنمائوں کی احتساب عدالت میں میاں شہباز شریف سے ملاقات کی شنید تھی۔
اس ملاقات کے بعد ہی مسلم لیگی رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کیلئے گئے جب کہ ایک ذمہ دار مسلم لیگی رہنما نے بتایا کہ میاں شہباز شریف مسلم لیگی رہنمائوں سے چوہدری نثار علی خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں استفسار کرتے رہے کہ ان میں سے کون ہمارے لئے بہتر ہوگا؟ اس ملاقات کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات منظر عام پر نہیں آئی جب راقم نے اس ملاقات کے حوالے سے بات کی تو وہ طرہ دے گئے اور کہا کہ ہم تو چوہدری نثار علی خان کے بہنوئی کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لئے گئے تھے۔
ظاہر ہے جہاں سیاست دان اکھٹے ہو جائیں تو یقیناً سیاست پر بات ہوتی ہے، چوہدری نثار علی خان نے پچھلے اڑھائی سال سے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا،اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ چپ کا روزہ کب توڑتے ہیں؟