• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ثاقب نظامی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا، اس کی دو ملکہ تھیں۔ چھوٹی ملکہ اس کی طرح رحم دل تھی اس کے تین بچے تھے،جب کہ بڑی ملکہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔بادشاہ چھوٹی ملکہ اور اس کے بچوں سے بہت پیار کرتا تھا، جس کی وجہ سے بڑی ملکہ چھوٹی ملکہ سے حسد کرتی تھی۔ایک دن اس نے اپنی سوکن اور اس کے بچوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے سازش تیار کی جس کے لیے محل کے ایک ملاز م کو بھی ساتھ ملالیا۔

ایک روز جب تینوں بچے باغ میں کھیل رہے تھے اور اس وقت وہاں ان کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ملازم بچوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ آئومیں تمھیں پورے باغ کی سیر کراتا ہوں۔بچے بہت خوش ہوئے اورملازم کے ساتھ چل دیئے۔وہ بچوں کو باغ کے دوسرے کونے میں لے گیا جو محل سے کافی فاصلے پر تھا۔ 

وہاں اس نے پہلے ہی سے ایک بڑا گڑھا کھودا ہوا تھا۔جب بچے اس گڑھے کے پاس پہنچے تو ملازم نے تینوں کو اس میں دھکا دے کراسےمٹی سے بھر دیا۔بچوں کو زندہ دفنانے کے بعد محل میں واقع اپنے کوارٹر میں جاکر اس نے اپنا حلیہ ٹھیک کیا۔ ایک گھنٹے بعد اسےبادشاہ کی رہائش سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔ 

وہ محل میں پہنچا تو بادشاہ سمیت تمام درباریوں کو تینوں شہزادوں کی گمشدگی کی وجہ سے پریشان پایا ،جب کہ چھوٹی ملکہ اس صدمے سے پاگل ہوگئی تھی۔ بادشاہ نے ملکہ کوبہ مشکل اس کےکمرے میں پہنچایا۔ اسے پاگل پن کے دورے پڑنے لگے، وہ بادشاہ، سمیت جو بھی سامنے آتا، اسے مارنے دوڑتی۔ 

ایک روز اس نے بڑی ملکہ پر چھری سے حملہ کیا، ملازموں نے بڑی مشکل سے اسے قابو میں کرکے بڑی ملکہ کی جان بچائی۔ اس واقعے کے بعد بادشاہ نے ملازموں کو حکم دیا کہ وہ ملکہ کو محل سے باہر نکال کر کہیں دور چھوڑ آئیں، یوں چھوٹی ملکہ کو محل بدر کردیا گیا۔ وہ دن بھر شہر کی گلیوں میں گھومتی پھرتی، جب کہ بچے اس کے پیچھے پتھر لے کر دوڑتے۔ رات کو وہ کسی مکان کے چبوترے پر سوجاتی ۔

ایک روز وزیرباغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس کے آخری حصے میں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے عجیب و غریب پودا دیکھا جس پرتین بہت ہی خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ وہ اس کے قریب گیا، چاہتا تھا کہ ہاتھ بڑھا کر تینوں پھول توڑ لے کہ اسے پھولوں میں سے آواز سنائی دی، ’’تم ہمیں توڑنا چاہتے ہو، ہم اونچے ہوتے جائیں گے ، کسی کے ہاتھ نہ آئیں گے، ’’بادشاہ سلامت آئیں گے تو ہم ان کے ہاتھ میں جائیں گے‘‘۔یہ سن کر وزیردوڑا ،دوڑا بادشاہ کے پاس گیا اور اسے پورا ماجرا سنایا۔

بادشاہ،اس کے ساتھ باغ میں آیا ۔ اسے بھی یہ تینوں پھول بہت پیارے لگے، اس نے اس سے قبل اس طرح کے پھول کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس نے پودے کے پاس پہنچ کر پھول توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ان میں سے آواز آئی،’’ہم اونچے ہوتے جائیں گے، کسی کے ہاتھ نہ آئیں گے ،بڑی ملکہ آئیں گی تو ہم ان کے پاس جائیںگے‘‘۔ بادشاہ نے یہ سن کر وزیر کو حکم دیا کہ وہ فوراً بڑی ملکہ کو بلا کر لائے۔ وزیر محل میں گیا اور ملکہ کے پاس جاکر اسے ساری بات بتائی اور اسے بادشاہ کے حکم کے بارے میں بھی بتایا۔ 

بڑی ملکہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی کہ پھولوں نےاسے بلایا ہے۔ جب بڑی ملکہ پھولوں کے پاس گئی اور انہیں پکڑنے لگی تو پھولوں میں سے پھر آواز آئی، ہم اونچے ہوتے جائیں گے ہم کسی کے ہاتھ نہ آئیں گے ،چھوٹی ملکہ آئیں گی تو ہم ان کے ہاتھ آئیں گے ۔بادشاہ نے یہ سنا تو وہ بہت پریشان ہواکیونکہ چھوٹی ملکہ کو محل سے نکال دیا تھا۔

بادشاہ نے اپنے ملازمین کو بھیجا کہ وہ ملکہ کو ڈھونڈیں۔جلد ہی چھوٹی ملکہ مل گئی اور اسے باغ میں لایا گیا۔ جیسے ہی چھوٹی ملکہ نے پھولوں کو ہاتھ لگایا تووہ پھول بچوں میں تبدیل ہوگئے ۔چھوٹی ملکہ اپنے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ بادشاہ نے جب بچو ں سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں ملازم یہاں لایا تھااوراس نے ہمیں گڑھے میں پھینک کر زندہ دفنا یاتھا۔اُسی وقت یہاں سے ایک پری گزر رہی تھی ۔ اس نے ہمیں پھول بنا دیااور کہا کہ جب وزیر یہاں سے گزرے گا تو تم اسے یہ کہنا۔

یہ سن کر بادشاہ نےملازم کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے بتایا کہ اسے یہ سب بڑی ملکہ نے کرنے کو کہا تھا۔ یہ سنتے ہی بادشاہ نے حکم دیا کہ بڑی ملکہ اور ملازم کو اندھے کنویں میں ڈال دیا جائے ، لیکن چھوٹی ملکہ نےبادشاہ کو ایسا کرنے سے منع کیا اور انھیں معاف کر دیا۔ بادشاہ نے بھی انہیں معاف کردیا، پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

تازہ ترین