• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدارتی ریفرنس، پارلیمنٹ نے ترمیم کیوں نہیں کی، الیکشن کمیشن سو رہا ہے، سپریم کورٹ کی رائے محفوظ

پارلیمنٹ نے ترمیم کیوں نہیں کی، الیکشن کمیشن سو رہا ہے، سپریم کورٹ کی رائے محفوظ


اسلام آباد(اے پی پی) سپریم کورٹ میں سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہو گئی ہے ، عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کر لی ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے معاملہ پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہ اوپن بیلٹ کے معاملے پر پارلیمنٹ نے ترمیم کیوں نہیں کی ، بدعنوانی تو ہوگئی لیکن الیکشن کمیشن لاعلم رہا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں،الیکشن کمیشن نے کرپشن بھی روکنی ہے صرف انتخابات ہی نہیں کرانے،الیکشن کمیشن سے بار بار پوچھا کرپشن روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے کوئی جواب نہیں ملا، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے اب محفوظ شدہ را ئے سے صدر مملکت آف پاکستان کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا جائے گا۔

دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ بدعنوان سرگرمیاں روکنے کا مقصد جرم روکنا ہے،سوال یہ ہے کہ کرپٹ پریکٹس روکنے کیلئے کس ٹھوس شہادت پر انحصار کیا جائے۔

مذکورہ بالا ریفرنس پر عدالت عظمی کی رائے سے متعلق صدر مملکت آف پاکستان کو آگاہی کا طریقہ کار اور وقت کا تعین ابھی نہیں کیا گیا تا ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عدالت عظمیٰ سے معاملہ کی سماعت کے دوران درخواست کی گئی ہے کہ سینٹ کے انتخابی عمل کی بروقت تکمیل کے لئے 28 فروری 2021 ء تک عدالت اپنی رائے ظاہر کرے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی عدالت عظمیٰ سے معاملہ پر اپنی رائے جلد از جلد دینے کی استدعا کی ہے۔دوران سماعت پاکستان بار کونسل کے وکیل عثمان منصور نے دلائل دئیے کہ ووٹر کو ووٹ کے ذریعے فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے،متناسب نمائندگی کا اصول دونوں ایوانوں کے لیے ہے،سیاسی اتحاد ہماری تاریخ ہے،سیاسی اتحاد کرکے صورتحال تبدیل بھی کی جا سکتی ہے ،پارلیمنٹ میں پہلے سے ہی بل موجود ہے،آئین میں وقت کے ساتھ نمو ہوتا ہے، قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے،انتخابات سے قبل کرپٹ پریکٹس روکنے کا آئینی اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے،انتخابات کے بعد کرپٹ پریکٹس کو جانچنے کیلئے الیکشن ٹربیونل موجود ہے۔ دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل خرم چغتائی نے دلائل دئیے کہ اراکین اسمبلی سینیٹ کا الیکٹورل کالج ہے ،اراکین اسمبلی کو عام شہریوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت حاصل ہے۔

دوران سماعت وکیل قمر افضل نے دلائل دئیے کہ میری رائے میں یہ ریفرنس قابلِ سماعت ہے،ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں،سینیٹ الیکشن کا معاملہ آرٹیکل 226 سے جڑا ہے،ووٹ اور سیکرٹ بیلٹ میں فرق ہے،ووٹر کو اپنے فیصلے کا کھلا اختیار حاصل ہے،بیلٹ پیپر اس اختیار کو استعمال کرنے کا آلا ہے۔

اٹارنی جنرل نے چیک بک بیلٹ پیپر کی استدعا کی ،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور انتخابی ریکارڈ کا محافظ بھی ہے،کیا الیکشن کمیشن بطور محافظ سیکرٹ بیلٹ کو نہیں دیکھ سکتا، الیکشن کمیشن کو ووٹ کا جائزہ لینے کے لیے کسی کو فون کی ضرورت نہیں،آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ووٹ قابل شناخت ہوتا ہے،انتخابی ریکارڈ کی حفاظت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ،ووٹ کو ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رکھا جاسکتا، عوام کا حق ہے کہ وہ جان سکیں انکے نمائندے نے کس کو ووٹ دیا۔

دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے حتمی ہوگی،عدالتی رائے پر نظر ثانی درخواست بھی آسکتی ہے،کیا ایسا فیصلہ درست ہوگا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظر ثانی بھی نہ ہو سکے۔

تازہ ترین