• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈسکہ دھاندلی میں ڈوریں کھینچنے والوں کو بےنقاب کرنا ابھی باقی ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈسکہ الیکشن دھاندلی میں ملوث انتخابی عملے اور فیلڈ افسران کیخلاف کارروائی کی ہے لیکن پس پردہ جن لوگوں نے اسلام آباد یا لاہور سے بیٹھ کر ان لوگوں کی ڈوریں کھینچی ہیں وہ اب تک محفوظ ہیں۔

باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ الیکشن کے دن، جب مکمل طور پر لاقانونیت کا راج تھا اور سرکاری مشینری صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی یا پھر خلاف ورزی میں ملوث افراد کی مدد کر رہی تھی، وزیراعلیٰ پنجاب کے عملے کے ایک اہم رکن متعلقہ فیلڈ افسران (کمشنر، آر پی او، ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او، اسسٹنٹ کمشنر، ایس ڈی پی او) کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فیلڈ افسران کو نہ صرف لمحہ بہ لمحہ ہدایات جاری کی جا رہی تھیں بلکہ دو سویلین ایجنسیوں، جن کے عہدیدار بھی مبینہ طور پر دھاندلی میں ملوث ہیں، کے بھی اس معاملے میں شامل ہونے کی تصدیق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کر دی ہے۔

ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انٹیلی جنس بیورو اور اسپیشل برانچ والے ملوث تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکریٹری، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، گجرانوالہ کے اہم پولیس اور سویلین افسران بتا سکتے ہیں کہ اسلام آباد سے ان کے ساتھ کون رابطے میں تھا۔

اسی دوران ایک مصدقہ ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر شدید دبائو تھا لیکن اس نے دبائو کا سامنا کیا اور جمعرات کو وہ فیصلہ کیا جس سے ادارے کے متعلق وہ رائے تبدیل ہو کر رہ گئی جو ماضی میں مجبور اور مغلوب ادارے کی تھی۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن پر زبردست دبائو ڈالا ہوا تھا تاہم کمیشن نے دبائو کے تمام اقدامات کو نظر انداز کر دیا اور فیصلہ کیا کہ کہ نہ صرف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے بلکہ گجرانوالہ ڈویژن کے اہم انتظامی اور پولیس افسران کیخلاف انضباطی کارروائی بھی کی جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 4؍ مارچ کو جب چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس پنجاب کمیشن کے روبرو پیش ہوں گے تو ممکنہ طور پر ان سے کمیشن تک عدم رسائی کے حوالے سے سوال کیا جائے گا، کمیشن متعلقہ افسران بشمول مذکورہ دو عہدیداروں کو الیکشن کے دن مسلسل کالز کرتا رہا لیکن کوئی دستیاب نہیں تھا۔ صرف چیف سیکریٹری سے ایک مرتبہ رات دیر کو تین بجے رابطہ کیا گیا تھا تاہم کمیشن کو وضاحت پیش کرنے کی بجائے وہ بھی وہیں غائب ہوگئے جہاں 20؍ پریزائڈنگ افسران ’’غائب‘‘ ہوگئے تھے۔

اگرچہ کمیشن نے کئی لوگوں کی توقعات سے بڑھ کر کام کیا ہے لیکن اس بات کوئی اندازہ نہیں کہ اس پورے واقعے کی مکمل تحقیقات کون کرے گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ سویلین انتظامیہ اور پولیس کی ڈور کون کھینچ رہا تھا۔ آزاد اور شفاف الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت وسیع تر اختیارات ہیں۔

اس قانون کے تحت وفاق اور صوبوں میں تمام ایگزیکٹو عہدیدار پابند ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مدد کریں۔ کوئی بھی ایگزیکٹو اتھارٹی الیکشن کمیشن کے احکامات کی خلاف ورزی کر سکتی ہے اور نہ ہی انہیں نظرانداز کر سکتی ہے۔ لیکن ڈسکہ میں ہونے والی دھاندلی اور صوبائی انتظامیہ کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ نے کمیشن کو بڑی آسانی سے نظرانداز کر دیا۔

جمعرات کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ آرڈر پنجاب حکومت کیخلاف ایک چارج شیٹ (الزامات کی فہرست) ہے۔ کمیشن نے این اے 75؍ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پورے حلقے میں 18؍ مارچ کو نیا الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔

اپنے آرڈر میں کمیشن کا کہنا تھا کہ دلائل سننے اور فریقین، ریٹرننگ افسران کی جانب سے پیش کردہ اور مختلف ذرائع سے کمیشن کی جانب سے جمع کردہ ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حلقے کے امیدواروں اور ووٹروں کیلئے ماحول سازگار نہیں تھا اور ووٹنگ ایمانداری، منصفانہ اور شفاف انداز سے نہیں ہوئی، قتل، فائرنگ، زخمی کرنے کے واقعات، امن عامہ کی خراب صورتحال، ووٹروں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات اور ایسے حالات کی وجہ سے نتائج مشکوک اور ناقابل تصدیق ہوگئے۔

تازہ ترین