• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
علامہ محمد اقبال نے اپنے نوجوانوں میں جو خصوصیات دیکھنا چاہی تھیں وہ عامیانہ پن سے ہٹ کر نہایت ہی خاص تھی۔ انہوں نے ایک عرصہ یورپ میں گذارا تو وہیں سے پھر ان کے ذہن میں ایک باعمل قوم کا تصور ابھرا۔ تیزی، وسعت نظری، تصور شاہین قوت، دور بینی اور بلند پروازی جیسی خصوصیات اور ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ اقبال نے مشرقی روحانیت کو بھی مدنظر رکھا۔ شاہین کی خصوصیات کے ذکر کے علاوہ اقبال کے یہاں تصوف والی صفات کا بھی ذکر ہے جیسےدرویشی، قلندری، خودداری وغیرہ۔ مگر آج اقبال کےخواب کو کتنے شاہینوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا؟ وہ جو اقبال کا ایک پسندیدہ پرندہ شاہین تھا۔ اقبال نے دوسرے پرندے جیسے جگنو، بلبل، کبوتر، طائوس وغیرہ نہیں مگر باز اور شاہین کو ترجیح اس لئے دی کہ یہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں بلکہ اس سے ایک فکر اسلامی جڑی ہے یعنی تمام خصوصیات کچھ یوں کہ خوددار، غیرت مند کہ دوسرے کے ہاتھ کا مارا شکار نہیں کھاتا۔ آشیانہ نہیں بناتا اور اس کی پرواز بھی تمام پرندوں سے بلند ہے، خلوت نشین ہے تیز نگاہ ہے۔ اقبال تو ایسی ہی صفات اپنے نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔مگر ہوا کیا کہ اقبال کے شاہینوں نے قلندرانہ وصف آزمائے یا اپنائے تو نہیں مگر کچھ خصوصیات کے خوگر ضرور ہوئے کہ نگاہ تیز رکھی اور بلندی پر اڑنا ہوا یا نہیں مگر ارض پاکستان سے پرواز کا ضرور تہیہ کر رکھا ہے۔ اقبال کے شاہینوں نے برقی تاروں کے ذریعے دور دور تک تانیں لڑا کر فارن کی فاختائیں قابو کرنے میں فنی مہارت حاصل کر لی ہے۔ شاہین کو اڑتا دیکھنے کی خواہش تھی اقبال کی مگر شاہینوں نے بے کار رہ کر فاختائوں کو قابو کرنے کے فن میں یکتا وپختہ ہوگئے۔ شہر یا دیہات کا شاہین اپنے بے کار وقت کو بروئے کار لاکر سوشل میڈیا کو استعمال کرکے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ نجانے کون سی ذہانت ہے ان کے پاس کہ دنیا کے جانے کون کون سے یعنی دور دراز کے ممالک تک رسائی حاصل کرکے وہاں کی حسینائوں کو ڈھونڈ کر ا ن سے جذبہ خیر سگالی کے جذبات بانٹتے ہیں پھر ان سے تعلقات محبت کی بنیادوں پر استوار کرکے انہیں اپنا ماحول دکھانے کے لئے پاکستان کے گائوں دیہات میں بلا لیتے ہیں۔ آپ سب سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ کن کامیاب شاہینوں کی بات ہو رہی ہے، وہ شاہین کہ جنہیں کوئی محنت طلب کام کرنے کی ضرورت نہیں، انہوں نے اپنی قسمت بنانے کا راستہ سوشل میڈیا کے ذرائع کو استعمال کرکے نکالا۔ اتنے باہمی تعلقات ملکوں کے درمیان نہیں جتنے میل اور فی میل قوموں کے آپس میں محبت سے رواج پا رہے ہیں، ہر چینل اور یو ٹیوب چینلز کی اہم خبر یہی ہے کہ فلاں یورپین ملک سے ایک فاختہ اڑتی ہوئی آئی ہے۔ حیرت ہوئی کہ جب ایک حسینہ پولینڈ سے تشریف لائیں، ان میں اور اقبال کے ایک شاہین میں ایسا عشق ہوا کہ دونوں نے عمروں کا بے پناہ فرق اپنے تعلق کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا۔ یہ عشق ہی ہوتا ہے جو معاشرے کے اونچے نیچے طبقے کی اور ذات برادری کی پرواہ تک نہیں کرتا۔ پھر یہی عشق جب عمروں کی بھی رتی بھر پرواہ نہ کرے تو سمجھ لیجئے کہ یہ عشق سچا ہی ہے۔ پولش لیڈی64 سال کی اور اقبال کا جوان شاہین صرف اور صرف 23سال کے چڑھتے شباب میں! مگر دونوں ہی بہت خوش ہیں۔ موصوفہ پولینڈ کے اسکول کی استانی ہیں، وہ شاہین کے گائوں میں آکر ان کے دیہاتی والدین سے مل کر بہت خوش دکھائی دیں۔ خیر یہ رواج سا ہوچلا ہے کہ نوجوان جب بھی اپنی سے بڑی خاتون سے شادی کرتے ہیں تو حضورؐ کی سنت یاد رکھتے ہیں۔ابھی حال ہی کی خبر ہے کہ چکوال کے دو بھائی جو درزی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی محبت میں بھی دو امریکن بہنیں پاکستان دوڑی چلی آئیں۔ ایک تعلیم کے شعبے میں اور دوسری پولیس میں ہیں۔ اب یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ یہ فاختائیں اڑ اڑ کر شاہینوں کے پاس آرہی ہیں تو کیا ایسے شاہین انہیں کہیں اپنے اردگرد نظر نہیں آئے یا یہ پاکستان ہی میں ہیں۔ یہ جو اتنی شادیاں رچائی جارہی ہیں تو لگتا ے کہ تمام بے کار شاہین اب کارآمد ہونے والے ہیں، ملک سے پرواز کرنے کے بعد یہ ہر طرح سے گوری بیوی کی فرماں برداری بھی کریں گے۔ اس کی ہر سرگرمی کا حصہ ہوں گے، اس کے لئے انہیں غیرت اور ایمان کو بھی نظر انداز کرنا پڑ سکتا ہے۔ بات اگر ان کے کتے نہلانے اور رفع حاجت کرانے، وقت بے وقت باہر لیجانے تک رہے تو ٹھیک ہے مگر دوسری تفریحات میں ساتھ نہ دینا انہیں مہنگا پڑسکتا ہے۔ مثلاً کلبنگ اور ڈانس بھی عام سی بات ہوگی لیکن بار میں جاکر یا گھر کی کسی پارٹی میں الکحل نا پینے پر اختلاف ہوسکتا ہے، پھر منع شدہ گوشت اور حلال گوشت پر بھی اختلاف ہوسکتا ہے یا پھر کئی ایسی سرگرمیاں جو قابل اعتراض ہوں اور شاہین کی غیرت جاگی تو کام خراب ہوجائے گا۔ فی الحال تو اپنی نمازیں بھی یاد نہ رہیں گی کیونکہ فاختائوں کا رنگ شاہینوں پر غالب آسکتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی گوری کسی نوجوان کیلئے مسلمان بھی ہوئی تو شادی ٹوٹنے پر وہ گھر کی جائے نماز اور تسبیح فوراً کسی صومالین کے حوالے کردیتی ہے کہ یہ مسجد میں پہنچائو یا پھر خود استعمال کرو۔ کیا تصور تھا اقبال کا کہ وہ شاہینوں میں مرد من کی وہ صفات دیکھنا چاہتے تھے، جس میں غیرت اور خود داری بھی ہو۔ یہ بھی کہ شاہین چکور کی غلامی نہیں کرسکتا۔ اقبال نے تو شاہینوں کو چکور اور گرگس کی صحبت سے گریز کرنے کو کہا تھا کہ اس سے ان کی بلند پروازی متاثر ہوسکتی ہے۔ مگر شاہینوں نے اپنی بے کاری کو گوریوں سے کیش کرالیا۔ اچھا ہے کہ میرے ملک کی بچیاں ایسے نکھٹو سے شاہینوں سے بچ جائیں گی۔ شاہین کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کسی چیڑیاں، کبوتر یا فاختہ کا شکار نہیں کرے گا۔ مگر ہمارا شاہین تو کام سے گیا۔
تازہ ترین