نظام شمسی میںتین سال قبل دریافت ہونے والا سیارہ ’’واسپ 107 بی‘‘ نرم اور کم کثافت والا ہے۔ دریافت کے وقت ہی’ ’واسپ 107 بی‘‘ کو سب سے کم کثافت والا سیارہ قرار دے دیا گیا تھا جہاں بڑی مقدار میں ہیلیم گیس کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ لیکن اب ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے معلوم کیا ہے کہ اس کی کثافت ہمارے سابقہ اندازوں سے بھی بہت کم ہے۔ واسپ107بی ایک ایسے سیاروی نظام (پلینٹری سسٹم) کا حصہ ہے جو ہم سے 211 نوری سال دور واقع ہے۔
اس سیارے کا شمار نارنجی دیووں (orange giants) کہلانے والے ’’سپر نیپچون‘ ‘قسم کے سیاروں میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کا بیشتر حصہ گیس پر مشتمل ہے۔یہ اپنے مرکزی ستارے (WASP-107) سے لگ بھگ اتنا ہی قریب ہے جتنا ہماری زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ہے۔یہ اپنے سورج کے گرد اتنی تیزی سے چکر لگا رہا ہے کہ صرف 138 گھنٹوں (5.72 زمینی دنوں) میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔ یعنی واسپ 107 بی کا ایک سال، زمین پر گزرنے والے صرف 5.72 دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔مرکزی ستارے سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے یہ بہت گرم بھی ہے اور اس کا بیرونی درجۂ حرارت 462 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ معلوم کیا گیا ہے۔
تاہم ان سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس سیارے کی جسامت ہمارے نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری (جیوپیٹر) جتنی ہے لیکن اس کی کمیت (مادّے کی مقدار) اس سے تقریباً دس گنا کم، یعنی ہمارے نیپچون جیسی ہے۔اگر واسپ 107 بی سے ایک مکعب سینٹی میٹر مادّہ لیا جائے تو اس کی کمیت صرف 0.13 گرام ہوگی۔ اس کے مقابلے میں مشتری کی کثافت دس گنا زیادہ یعنی 1.33 گرام فی مکعب سینٹی میٹر، جبکہ زمین کی اوسط کثافت 5.51 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے (جو واسپ 107 بی سے 42.4 گنا زیادہ ہے)۔
کسی سیارے کی اتنی کم کثافت صرف تب ہی ممکن ہے جب اس کے مرکزی حصے یعنی قلب (core) کی کمیت بھی بہت کم ہو۔ ماہرین نے محتاط اندازہ لگایا ہے کہ واسپ 107 بی کے قلب کی کمیت ناقابلِ یقین حد تک کم، یعنی زمین کے مقابلے میں صرف 4.6 گنا زیادہ ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ واسپ 107 بی کا 85 فی صد مادّہ گیس کی شکل میں ہے۔البتہ ماہرین کےلیے یہ بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے کہ واسپ 107 بی اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے کہ جہاں کسی بھاری بھرکم گیسی سیارے کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔
ہمارے مروجہ فلکیاتی نظریات ہمیں یہی بتاتے ہیں۔اگر ہمارے یہ نظریات درست ہیں تو پھر واسپ 107 بی اپنے ستارے سے بہت دورکسی مدار میں بنا ہوگا، جسے آس پاس موجود دوسرے اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کی قوتِ ثقل (گریویٹی) نے دھکیل کر ستارے کے قریب کردیا ہوگا۔لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہمیں اپنے مروجہ فلکیاتی نظریات میں تبدیلی کرنا ہوگی۔