• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے یاسر بیٹے سے چھیڑ چھاڑ کے انداز میں بحث نما گپ شپ کیا کرتا ہوں کہ علم عمومی طور پر خاندان در خاندان چلتا ہے، سب سے پہلے میں خود یاسر کی مثال دیتا ہوں کہ تمہاری تحریروں نے تمہیں آج کے نوجوانوں کا رول ماڈل بنا دیا ہے۔ پھر بات بنانے کے لئے جھوٹی سچی اپنی مثال بھی دینا پڑتی ہے۔ پھر یاسر کے چھوٹے بھائی علی عثمان قاسمی کی مثال سامنے لاتا ہوں، جو علمی حلقوں میں ایک بڑا نام ہے۔ اس کے بعد یاسر کے دادا، اس کے پردادا، آگے ان کے پردادا اور پھر اس سے بھی آگے آٹھ سو سال تک علمی وراثت کی بات کرتا ہوں۔ اپنے بھائی جان ضیاء الحق قاسمی مرحوم کی مثال دیتا ہوں جنہوں نے مزاحیہ شاعری کے جھنڈے ہی نہیں گاڑے بلکہ مزاح کو ایک تحریک کی شکل بھی دی۔ میں اپنی تین پھوپھیوں اور سب سے بڑی بہن کے بارے میں بتاتا ہوں کہ یہ چاروں شاعرہ تھیں مگر انہوں نے شاعری صرف سنانے تک محدود رکھی، باقی ہمارے اسلاف آٹھ سو سال تک صاحبانِ تصنیف ہیں اور منشی محمد دین فوق کی کتاب ’’تاریخ اقوام کشمیر‘‘ میں اول سے آخر تک ان کا ذکر موجود ہے۔ یاسر اس مثال اور اس نوع کی دوسری مثالوں کو محض اتفاق قرار دیتا ہے، ہو سکتا ہے وہ صحیح ہو کیونکہ بہت قابل اور اہل علم کے خاندانوں کے سپوتوں کو اپنےکرتوتوں سے اپنے خاندان کے منہ پر کالک ملتے بھی دیکھا ہے۔

معافی چاہتا ہوں یہ بات یونہی درمیان میں آگئی، میرا آج کا کالم توایک بہت بڑے علمی خاندان سے وابستہ کاظم سعید صاحب کی معرکۃ الآرا کتاب ’’2047کا پاکستان کیسا ہو گا؟‘‘ پر ہے۔ واضح رہے کاظم سعید برادرِ مکرم اور میرے صاحبِ علم دوست سید حیدر تقی کے بھانجے ہیں۔ سیدحیدر تقی، دنیائے فلاسفی کے بڑے نام سیدمحمد تقی کے صاحبزادے ہیں۔ جون ایلیا اور رئیس امروہوی کے بھتیجے ہیں یعنی ایں ہمہ خانہ آفتاب است۔ لیکن کمال یہ ہے کہ کاظم سعید اس عظیم تعارف کے باوجود خود بہت بڑے ہیں۔ متعدد عالمی اداروں کے ساتھ مختلف حیثیتوں سے منسلک ہیں مگر ایک سچے پاکستانی کو پاکستان کا درد کہاں چین لینے دیتا ہے۔ انہوں نے بہت زیادہ ریسرچ کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ 2047میں پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہو گا۔ انتظار کی یہ مدت اگرچہ بہت طویل ہے لیکن ان کے بقول بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے بہتر مستقبل کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے، اس کے لئے ضروری تھا کہ شروع ہی میں ساری توجہ جی ڈی پی میں اضافے کی طرف دی جاتی، چین نے 1980میں جی ڈی پی میں چار گنا اضافے کا ارادہ کیا اور پھر اس میں اضافہ کرتے کرتے سپر پاور بن گیا۔ کاظم سعید کا کہنا ہے کہ ہم بھی 2047 تک ایک عالمی طاقت بن جائیں گے مگر اس کے لئے ہمیں جی ڈی پی میں آٹھ گنا اضافہ کرنا ہو گا۔ عالمی شہرت کے حامل کاظم سعید کا خیال ہے کہ غربت کے خاتمے کا سفر شروع ہو چکا ہے، ان کے منہ میں گھی شکر۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت نے کورونا کو بہت اچھے طریقے سے ڈیل کیا ورنہ ترقی کا یہ سفر ادھورا رہ جاتا۔

کاظم سعید کی کتاب جو چھ سو صفحات پر مشتمل ہے، پڑھنے کے قابل ہے۔ اس میں بہت وقیع ریسرچ اور اعلیٰ درجے کی معلومات ہیں، جن میں سے بہت سوں سے ہم واقف ہی نہیں لیکن ایک بات جو مجھے بہت اچھی لگی وہ یہ تھی کہ پاکستان میں چالیس فیصد لوگ چٹے اَن پڑھ ہیں، انہیں بہتر روزگار کے لئے چھوٹی صنعتوں کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ کام بہت سے شہروں میں بہت پہلے سے ہو رہا ہے مثلاً سیالکوٹ میں بہت کم گھر ایسے ہوں گے جہاں بچے، عورتیں اور اکثر اہل خانہ ان چھوٹی صنعتوں کے طفیل آرام دہ زندگی نہ گزار رہے ہوں ۔ مگر کاظم سعید چین اور جاپان کی سطح پر چھوٹی صنعتوں کا پھیلائو چاہتے ہیں۔ میں ایک ان پڑھ آدمی ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا کون ہوں مگر ہمیں یہ کرنا ہو گا۔ کاظم سعید صرف چھوٹی صنعتوں پر زور نہیں دیتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے ملک سے بیروزگاری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے تو ہمیں ایسے افراد کے لئے اور بہت سے سیکٹر بھی تلاش کرنا ہوں گے جو تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ وہ حکومت کی طرف سےکنسٹرکشن انڈسٹری کے پھیلائو کو بھی بیروزگاری کے خاتمے میں مددگار سمجھتے ہیں۔ میں کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے بہت سی ایسی باتیں بھی چھوڑنے پر مجبور ہوں جو اس میں بیان کرنے والی ہیں۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہ شکر ہے کسی نے مایوس قوم کو کچھ امید تو دلائی ورنہ بدخواہ لوگ تو پاکستان کے خاتمے کی بات پوری بے شرمی سے منہ کھول کر کرتے ہیں۔ 2047ءاگرچہ دور ہے مگر بہت دور بھی نہیں ہے۔ دوسرے اہلِ علم کوبھی ہمارے اس عالمی شہرت یافتہ شخصیت کی تصنیف کی طرز پر اپنی اپنی رائے دینی چاہئے۔ بہرحال کتاب پڑھنے کے لائق ہے اور اس میں سوچنے کو بہت کچھ ہے۔

تازہ ترین