• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دین سے لے کر دنیا تک ہر کسی کا اپنا اپنا فہم ہوتا ہے اور اس ’’فہم‘‘ کے پیچھے ڈی این اے سے لے کر ماں باپ کی تربیت، سکول، کالج، یونیورسٹی کی تعلیم اور معاشرہ تک بے شمار عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں، سو کوئی آدمی اپنی اوقات بساط سے بڑھ کر سوچ ہی نہیں سکتا۔ کتا بھونکے گا نہیں تو کیا کے ایل سہگل، مکیش اور کشور کمار کی طرح نغمے سنائے گا؟ سب DNA کے قیدی ہیں۔

سپریم کورٹ نے ریفرنس کیس میں عدالتی فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بطور وکیل ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی اجازت دے دی اور فاضل جج کو دوران سماعت مخالف فریق کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات پر برداشت کا مظاہرہ کرنے کا کہا جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ...

’’ایسا لگتا ہے کہ آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں‘‘

مجھے اس کیس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میرا دکھ اور دلچسپی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مندرجہ بالا تبصرہ تک محدود ہے جس پر پروین شاکر مرحومہ مدتوں پہلے یہ تبصرہ کر گئی کہ ...’’ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘

جج صاحب کے اس تبصرہ پہ بہت سے تبصرے تبرّے ہو رہے ہیں کہ ایسا کرنے والے ایسا کرنے کے علاوہ اور کچھ کر ہی نہیں کرسکتے کہ ہر ایک کی تربیت اور طبیعت کا اپنا اپنا پس منظر ہوتا ہے۔

’’میں نئیں بولدی مرے چ مرا یار بولدا‘‘

’’یار‘‘ خاندانی پس منظر کی شکل میں بھی بولتا ہے اور اس کا بولنا انسان کے شجرِنسب کا اعلان اور تعارف بھی ہوتا ہے اور عرب کہتے ہیں انسان اپنی افتاد طبع کا اسیر ہوتا ہے اور اسی کو آج DNA کہتے ہیں۔

قاضی صاحب نے جو جملہ بولا اس میں ’’گٹر‘‘ اک علامت کے سوا کچھ نہیں جیسے ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’’انسانی سروں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا‘‘... ’’ فلاں جگہ تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی‘‘ ...’’کھوےّ سے کھوا چھل رہا تھا‘‘...’’ فلاں سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنی انگلیاں گننا ضروری ہے‘‘... ’’سستا اونٹ مہنگا پٹہ‘‘ ...’’ مہر تو بہت چھاتیوں میں دودھ نہیں‘‘... ’’رانڈی کے گھر ہانڈی عاشق کے گھر فاقہ‘‘...’’ایک طشت میں حلوہ ایک میں گوبر، اندھے کے لئے دونوں برابر‘‘ ... ’’فلاں کا ڈسا پانی نہیں مانگتا‘‘... ’’بنولے کے لوٹ میں برچھی کاگھائو‘‘ وغیرہ وغیرہ وغیرہ تو یہ سب کچھ ’’سمبالک‘‘ ہے۔

عرض کرنے کا مطلب یہ کہ ایسی باتیں، محاورے، ضرب الامثال، حکائتیں، روایتیں، اکھان سب ہی سمبالک ہوتے ہیں، اور شاعری تو نام ہی مبالغہ کا ہے۔ بیٹا کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو ماں کہتی ہے ’’تیرے نالوں چنگا سی میں وٹہ جم لیندی‘‘ یعنی ’’تمہیں پیدا کرنے سے بہتر تھا میں کوئی پتھر پیدا کرلیتی‘‘ لیکن ہم تو وہ لوگ ہیں جو چھلکے کھاتے اور گودا پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ جملوں کی بھی ایک ’’روح‘‘ ہوتی ہے لیکن افسوس صد افسوس ’’روح‘‘ تک رسائی آسان کام نہیں، اس کے لئے اپنے اندر بھی ’’پاکیزہ روح‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدیم ہاشمی نے کہا :

دیکھنے سے پہلے دھو آنکھوں کی گندی پتلیاں

ورنہ چہرہ ڈھانپ لے گی تجھ سے اچھائی مری

ممکن ہو تو جسٹس فائز عیسیٰ کی بات کو سمجھنے اور ان کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کریں ورنہ ملک تو ’’معصوم‘‘ ہی ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی ملک صحرائوں، دریائوں، میدانوں، کھیتوں کھلیانوں، پہاڑوں، جنگلوں، سمندروں کے مجموعہ کے علاوہ کیا ہوتا ہے؟ اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ جس رب العالمین نے ان گنت عالمین کو پیدا کیا، وہ چاہتا تو ملک بھی بنا دیتا یعنی ملک انسانوں یعنی خود ابن آدم کی اپنی ’’ایجاد‘‘ ہے اور بنی نوع انسان نے اسی کرۂ ارض پر کروڑوں سال ’’ملکوں‘‘ کے بغیر گزارے اور پھر مدتوں، مدتوں، مدتوں نہ کوئی پاسپورٹ تھا، نہ یہ ویزے تھے اور نیشن سٹیٹ تو ابھی کل کی بات ہے۔ مطلب یہ کہ جب کوئی کسی ملک کو گٹر، جہنم، غریب، مہذب، غیر متمدن، جاہل، دہشت گرد وغیرہ قرار دیتا ہے تو یہ ’’قصیدے‘‘ اس سرزمین نہیں وہاں کے نظام، عوام اور اشرافیہ کے بارے میں ہوتے ہیں جن پر برا منانے کی بجائے اپنے کرتوتوں پر غور کرنا چاہیے، اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔

حیرت اس بات پر بھی ہے کہ دنیا ہمیں ’’تیسری دنیا‘‘ کہتی رہی، اس پر تو ہم کبھی نہیں بولے حالانکہ اس کا سلیس زبان میں مطلب ہے ’’تیسرے درجہ کی دنیا‘‘ ... تو کیا یہ کوئی اعزاز کی بات تھی؟

ملال ہے اس بات کا کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ خلوتوں میں تو روتے، پیٹتے، ماتم کرتے اور معاشرہ کے بری طرح گل سڑجانے پر کڑھتے ہیں، رج کے اپنی اپنی چارپائیوں کے نیچے ڈانگیں پھیرتے ہیں لیکن جب کوئی ہمیں آئینہ دکھاتا ہے، سرعام حقیقت بتاتا ہے، لفظ چبائے بغیر سچ بولتا ہے تو ہمیں حب الوطنی کے سطحی سفلے دورے اور دندل پڑنے لگتی ہے۔ بہادرو! سچ کو سمجھو اور اس کا سامنا کرو۔

ہم میں سے کتنے ہیں جو آج بھی یہ سوچ سوچ کڑہتے،مرتے ہیں کہ ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے، ہمارا سیاسی و مالی نظام عوام دشمن ہے، ہمارے کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، بیروز گاری کا روگ کینسر کی طرح پھیل رہا ہے، عوام کو اناج، علاج، انصاف، چھت اور پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو؟ ..... ان سب کو گولی ماریں کہ عوام کو تو آج تک وہ عزت بھی نصیب نہ ہوسکی جو ’’مفت‘‘ ملتی ہے جبکہ ’’گٹر‘‘ میں ان گنت بدیاں برائیاں ہوں گی لیکن ایک خوبی ضرور ہے کہ گٹر اپنے باسیوں کے ساتھ ایک سا اور منصفانہ سلوک کرتا ہے۔

خاطر جمع رکھیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دراصل پاکستان کو نہیں اس کے مضحکہ خیز، عوام دشمن، فرسودہ گلے سڑے، آئوٹ ڈیٹڈ نظام کو ’’گٹر‘‘ کہا جو سو فیصد درست ہے۔ ہم اس دنیا میں زندہ ہیں جہاں ہر سال بعد کاروں سے لے کر سیلولر فونوں تک کے ماڈلز تو بدلتے ہیں لیکن یہ پورا نظام صدیوں پرانے قوانین کے رحم و کرم پہ ہے جس کا سر پیر ہی کوئی نہیں۔

جو نظام عوام کے لئے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو بھی یقینی نہ بنا سکے وہ ’’گٹر‘‘ سے بھی بدتر ہے کہ ’’گٹروں‘‘ کے بھی کچھ اصول، قاعدے، ضابطے، قدریں، قانون، حدود و قیود ہوتی ہیں لیکن یہ تو مادر پدر آزاد کھاتہ ہے جو ’’اقلیت‘‘ کو تحفظ دیتا ہے... ’’اکثریت‘‘ کو نسل در نسل برباد کرتا ہے۔ ’’بزکشی‘‘ کا یہ میدان وہ پاکستان ہر گز نہیں جس کے خواب قائد اعظم اور ان کو قائد ماننے والے معصوم عوام نے دیکھے تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین