• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
قارئین! مارچ 2020 سے مارچ 2021 تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔اس سال بھر میں اتنے جنازے پڑھے اور پڑھائے جتنے عمر بھر نہ پڑھے نہ پڑھائے تھے۔ ایک ایک دن میں سات سات جنازے پڑھانے کا بھی اتفاق ہوا۔کورونا کی آفت عظیم کے باعث موت کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔مرنے والوں کی تجہیز و تکفین تدفین کے باعث زندگی کے 62ویں سال میں ایسے باوفا مرحوم احباب ملے جن کی خدمت پر فخر تو کیا جا سکتا افسوس نہیں۔نہ ان سے احسان فراموشی کی توقع ہے اور نہ محسن کشی کی۔نہ یہ گلا کرتے ہیں نہ غیبت، نہ الزام لگاتے ہیں نہ تہمت۔نہ غرور کرتے ہیں نہ تکبر۔نہ زخم زبان لگاتے ہیں نہ عیب جوئی۔نہ ان سے شکایت بازی کی توقع ہے نہ ہی پگڑی اچھالنے کی ۔ نہ آبروریزی کرتے ہیں نہ منصوبہ بندی۔نہ چغل خوری کرتے ہیں نہ خوشامد،یہ عجیب احباب ہیں سب کچھ سنتے ہیں بولتے نہیں ہیں۔چار دہائیوں سے زیادہ زندہ احباب کی خدمت پر کبھی اتنا اطمینان نہیں ہوا جتنا ایک سال میں مرحوم احباب کی خدمت پر ہوا ہے۔اکثر زندہ احباب کے بارے میں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ چپ رہیں مگر وہ چپ نہیں ہوتے۔ جبکہ ان کے بارے میں ہماری خواہش ہے کہ یہ بولیں مگر یہ بولتے نہیں ۔ عموماً ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ دل نہ دکھائیں مگر وہ دل دکھائے بغیر رہتے نہیں ۔ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں سکون دیں مگر وہ ہمیں اذیت دیتے ہیں ۔ ان نئے دوستوں کا جدھر رخ موڑیں انکار نہیں کرتے۔اکثر زندہ دوست مخلوق میں شکایتیں کرتے ہیں جبکہ یہ خالق کے پاس پہنچ کر بھی شکایت نہیں کرتے۔مجھے سال بھر کی خدمت سے یہ اندازہ ہوا کہ بہت سارے زندہ احباب کی خدمت فضول کی ہے۔اگر اس خدمت خلق کا پہلو نہ ہو تو ضیاع وقت کیا ہے۔ اس امید پر کہ اللہ اجر دے گا زندہ کی بھی خدمت کی ہے اور تادم آخر حتی المقدور اس خدمت کو انجام دیتے رہیں گے۔ اس لئے کہ حدیث ہے الدین النصیحۃ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ یہ بھی وارد ہوا کہ دین اطاعت خالق اور شفقت خلق کا نام ہے ۔ تاہم جو لطف مرحومین کی خدمت میں ہے وہ زندوں کی خدمت میں نہیں ہے۔ حضور پاکؐ کی حدیث مبارکہ ہے ۔اذکرو موتکم بالخیر۔اپنے مرحومین کو خیر سے یاد کرو۔زیارت اہل قبور کے لئے اس لئے بڑا اجر و ثواب رکھا گیا ہے۔مرحومین کے قرآن خوانی ، فاتحہ خوانی کے لئے ، نیاز و ارواح کا اصل ہدف بھی مرحوم احباب کو نہ بھلانا ہے۔اس سال بھر کے تجربہ سے میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے مرحوم احباب خدمت کے لئے زیادہ حقدار ہیں۔ اپنے ہاتھ سے ان کو غسل دینا ، اپنے ہاتھ سے کفن پہنانا،اپنے ہاتھ سے ان کے اعضائے سجدہ پر کافور کا ملنا، ان کی نماز جنازہ پڑھنا پڑھانا، فاتحہ پڑھنا پڑھانا، میت کو کندھا دینا،قبر تک لے جانے سے پہلے میت کو تین منزلیں دینا،کلمہ شہادت کا پڑھنا اور پڑھانا،تلقین میت، فاتحہ خوانیوں ، قرآن خوانیوں اور مجالس میں خطاب و شرکت،ورثا سے تعزیت کرنا، قبرستان میں داخل ہو کر سلام کرنا۔سورۂ فاتحہ سورۂ قدر، سورۂ ملک، سورہ ٔ یاسین ، سورہ ٔ اخلاص وغیرہ کا پڑھنا ۔ یہ وہ خدمات ہیں جن کو کرنے میں پشیمانی کا کوئی شائبہ نہیں۔ ورنہ ہمارے زندہ احباب نے نیکیوں کے بدلے میں ہمارے ساتھ کیا کیا نہیں کیا؟ میری تو دلی خواہش یہ ہے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی اموات کی خدمات میں گزار دوں ۔ اس لئے کہ کبھی ان بیچاروں کو ان کے بعض عزیز بھلا دیتے ہیں۔ویسے بھی ایسے لوگوں کی خدمت کرنا جو کچھ دے نہ سکتے ہوں 100 فی صد بے لوث کے زمرے میں آتا ہے اور میں عموماً مرحومین کی برائیاں کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی برائیاں نہ کریں جو بیچارے اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ مرحوم احباب کی زیادہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور بعض زندہ افراد کے شر سے بچائےجن کی ہم تھینک لیس خدمت کئے جا رہے ہیں اور وہ مسلسل ایزا رسانی فرمائے جا رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو نیک ہدایت دے اور زندوں کے ساتھ مرحومین کی خدمت کی توفیق بھی دے۔ این دعا از من و از جملہ جہان آمین باد
تازہ ترین