• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کسی کرشمے سے کم نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے ووٹوں کے تناسب سے اس کا امکان نہیں تھا اور پھر وزیراعظم نے اپنے امیدوار کو جتوانے کیلئے دن رات ایک کر دیا تھا۔ان کے اپنے بقول ان کی پارٹی PTI کے 16 ارکان قومی اسمبلی بک گئے ۔

اس ناکامی کے بعد اپوزیشن پر ان کا غصہ قابل فہم ہے لیکن انہوں نے جس طرح ایک قابلِ احترام قومی ادارے الیکشن کمیشن کو مطعون کیا ہے یہ ناقابلِ فہم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اس ہارس ٹریڈنگ کا ذمہ دار ہے اس نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، انہوں نے سپریم کورٹ میں جا کر یہ کیوں نہیں کہا کہ ووٹ کی سیکریسی نہیں ہونی چاہئے یا یہ کہ 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ لگانا کونسا مسئلہ تھا۔

یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک بار بھی یہ واضح نہیں کیا کہ اس حوالے سے غیر مبہم آئینی تقاضا کیا تھا؟ آئین، جس کے تحفظ کی نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ دیگر تمام اداروں اور ان کے ذمہ داران سمیت خود اس اعلیٰ ترین ذمہ داری پر فائز شخص نے بھی قسم کھا رکھی ہے۔ اس قسم یا حلف کو توڑنے کا حق کسی ادارے یا فرد کوحاصل نہیں۔ یہ وہ حساس ذمہ داری تھی جس کا الیکشن کمیشن نے نہ صرف یہ کہ ادراک کیا بلکہ پورے وقار سے اپنے حلف کو نبھایا۔ یہ بھی سب پر عیاں ہے جیسا کہ آپ تو کہا کرتے تھے کہ اگر حکمران دیانتدار ہو تو نیچے بے ایمانی ہو ہی نہیں سکتی۔

سیانے کہتےہیں کہ دوسرے کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے چار انگلیاں اپنی طرف اٹھتی ہیں، کچھ توجہ اِس جانب بھی ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس سینیٹ الیکشن میں دوسری پارٹیوں نے بھی اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے اپنے ساتھیوں پر جو ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی ہیں، کیا کسی اورنے بھی اس نوع کے گھنائونے الزامات عائد کیے ہیں؟

شنید تو یہ ہے کہ آپ کی پارٹی کے ممبران اسمبلی نے پی ڈی ایم کے امیدوار کو جتوانے کیلئے اپوزیشن کے رابطے پر کہا کہ ہمیں اگر یہ گارنٹی دلوا دیں کہ اگلے انتخابات میں ہمیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دے دیا جائے گا تو ہم گیلانی صاحب کو ووٹ دینے کیلئے تیار ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے بعض لوگوں کو آپ کرپٹ قرار دے رہے ہیں وہ آپ سے اور آپ کی پارٹی سے اس قدر نالاں و مایوس ہیں کہ وہ ن لیگ کے ٹکٹ کو آئندہ انتخاب میں کامیابی کی گارنٹی سمجھتے ہیں۔

انہیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی پارٹی عوام میں اس قدر غیر مقبول ہو چکی ہے کہ آنے والے انتخابات میں عوام اپنے دکھوں کا مداوا انہیں شکست دے کر کریں گے جس کے آثار حالیہ دنوں ہونےوالے ضمنی انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گئے۔

اس ملک کے ایک سے بڑھ کر ایک داخلی و خارجی مسائل ہیں، کروڑوں عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت و افلاس کی چکی میں پس رہےہیں لوگ خود کشیاں کر رہےہیں، جہالت،مذہبی جنونیت اور غربت جیسے عفریت زوروں پر ہیں اورآپ بات بے بات کہتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا ، میرے علاوہ سب کرپٹ ہیں،پہلے کہتے تھے کہ اپوزیشن والے کرپٹ ہیں ، اب کہتے ہیں میری پارٹی کے اندرمیرے اپنے کئی ممبران قومی اسمبلی بھی کرپٹ ہیں، الیکشن میں سیکریسی کی روح یہ ہے کہ لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ سکیں اوپن بیلٹ میں لوگوں کی کئی مجبوریاں ہو سکتی ہیں وہ پارٹی جبر کےتحت بے بس ہو سکتے ہیں جبکہ متبادل پارٹیوں میں جدوجہد کرنے والوں کو ان کی پارٹیاں نظر انداز نہیں کر سکتیں، جہاں یہ لوگ خود کو ایڈجسٹ کروا سکیں اس لئے یہ ممبران خیال کرتے ہیں کہ کھلے بندوں مخالفت کر کے وہ کہاں جائیں۔

آج آپ اعتماد کا ووٹ لینے جا رہے ہیں، یقین رکھیں کہ بہت سے ممبرانِ اسمبلی آپ کو اپنی مجبوریوں کے تحت ووٹ کریں گے ورنہ اگر خفیہ بیلٹ کے ذریعے آپ نے اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا تو وہی کچھ ہونا تھا جو تین مارچ کو ہوا۔زرداری صاحب کی یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ پندرہ دیگر ووٹ بھی تھے وہ نہ جانے کہاں چلے گئے ورنہ ہمارے امیدوار کو تو 20ووٹ زیادہ پڑنے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہےکہ اندرونی منافرت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔

لہٰذااب بھی وقت ہے کہ آپ منافرت کی راگنی بند کرتے ہوئے ملک و قوم میں اتحاد و یکجہتی، وقار، احترام اور بھائی چارے کی فضا بننے دیں، مل بیٹھ کر گفتگو اور مکالمے کے ذریعے ایکتا و یگانگت کا ماحول بننے دیں، یہ کوئی حق و باطل کے معرکے نہیں ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔

خدارا اب منافرت بھرا پروپیگنڈہ بند کرتے ہوئے احترام باہمی کی فضا پیدا ہونے دیں۔ اپنی زندگی کی طرح اس اقتدار کو عارضی چیز سمجھیں کوئی تو اچھی یادگار چھوڑ جائیں، یہ کیا بات ہے کہ میں محرومِ اقتدار ہونے کے بعد بھی منافرت و دشمنی کا کلچر جوں کاتوں برقرار رکھوں۔ خدارا کچھ تو انسانیت کا بھرم قائم رہنے دیں۔

تازہ ترین