• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعتماد کے ووٹ کیلئے قرارداد پیش کی جائیگی، اجلاس تاریخ ساز ہوسکتا ہے

اسلام آباد(فاروق اقدس) قومی اسمبلی کا اہم ترین اجلاس جوتاریخ ساز بھی ہوسکتا ہے، پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوگا۔ 

آج ہفتے کی دوپہر سوا بارہ بجے ہونے والے اجلاس میں پیش کیے جانے والے ایجنڈے کے مطابق اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے سب سے پہلے قرارداد پیش کی جائیگی۔ یہ قرارداد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی پیش کرینگے۔

 تحریک ناکام ہونے پر وفاقی کابینہ تحلیل،ایوان قواعدکے تحت نئے قائدایوان کاانتخاب کرےگا گوکہ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن سکھر میں پریس کانفرنس کے دوران پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ اپوزیشن کا کوئی رکن اسمبلی ہفتے کو ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں ہوگا۔

 تاہم اجلاس سے قبل پی ڈی ایم میں شامل پارلیمانی نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کے ارکان اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کرینگے اور جہاں اس بات کا حتمی فیصلہ اور باضابطہ اعلان کیا جائیگا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ارکان اسمبلی اجلاس میں شرکت کرینگے یا نہیں۔ 

وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حوالے سے انتہائی پراعتماد ہیں تاہم طریقہ کار کے مطابق اگر کوئی وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو ووٹنگ کے عمل کے دوران اگر قومی اسمبلی کے 172 سے کم ارکان وزیراعظم پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

 باقی ارکان غیر حاضر رہیں یا ایوان میں ہوتے ہوئے بھی لابیز میں جا کر شمار کنندگان کے پاس اپنے نام کا اندراج نہیں کروائیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وزیراعظم ایوان میں اکثریت کھو چکے ہیں،ایسا ہونے کی صورت میں صدر مملکت کا یہ خدشہ کہ قائد ایوان کے پاس اکثریت نہیں رہی درست ثابت ہو جائے گا۔ وفاقی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور ایوان قواعد کے تحت نئے قائد ایوان کا انتخاب کرے گا۔ جس کا طریقہ کار بالکل وہی ہے جو انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کیلئے اختیار کیا جاتا ہے۔‘

 پاکستان کی تاریخ میں بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ 

اسی طرح چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکرز کیخلاف آنے والی تحاریک عدم اعتماد کو بھی ناکامی کا سامنا کر چکی ہیں۔

 واضح رہے کہ ’اس سے پہلے صرف نواز شریف واحد وزیراعظم ہیں جنھوں نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ 18 اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ 

جنھیں سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کی سہ پہر بحال کیا اور اگلے ہی دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ 

اس اجلاس کے اختتام پر ایک قرار داد کے ذریعے نواز شریف نے اعتماد کا ووٹ لیا۔ 

اس وقت ایوان کے 210 میں سے 123 ارکان نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

تازہ ترین