سہیل وڑائچ
ماجد نظامی
فیض سیفی، وجیہہ اسلم
عبد اللہ لیاقت، شیراز قریشی
سیاسی شطرنج میں مہروں کی چال چلنے کے بعد سینیٹ الیکشن کی بساط لپیٹ دی گئی ۔سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت نہ صرف بڑے مقابلے کئے بلکہ وفاق میں اپ سیٹ بھی ہوئے۔وفاق میں نمبر گیم ایسی پلٹی کہ ووٹوں کی خرید وفروخت کے نعرے تک لگے ۔الیکشن سے قبل جہاں ووٹوں کی خرید و فروخت کی منڈی لگی وہیں الیکشن سے کچھ دیر قبل حکومتی اراکین اسمبلی پر ووٹ بیچنے کا الزام بھی زبان زد عام ہونے لگا۔
صوبائی اسمبلیوں میں ممکنہ طور پر کوئی بڑا اپ سیٹ تو نہیں ہوا البتہ سیٹوں کے اعدادوشمار میں معمولی فرق دیکھنے میں آیا۔الیکشن میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیاہے کہ وہ پارلیمنٹ سے اپنے اعتماد کا ووٹ لیں گے تاکہ پارلیمنٹ پر ان کے اعتماد کا اندازہ لگایاجاسکے۔
دوسری جانب ذرائع یہ بھی دعوی کر رہے ہیں کہ قومی اسمبلی میں ہونےوالی ووٹنگ میں وفاداری تبدیل کرنے والے اراکین کے نام وزیر اعظم تک پہنچا دئیے گئے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان اراکین کی شناخت اور ان کے خلاف کیاتادیبی کارروائی ہوگی ۔ اس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابی دنگل سجا ۔ فاٹا کی چار نشستوں پر انتخابات نہیں ہوئے جس کے باعث الیکشن کے بعد پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے ۔25 فروری 2021کو پنجاب کی 11نشستوں پر بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے تھے جن میں سے پاکستان تحریک انصاف نے 5، پاکستان مسلم لیگ نواز نے 5 اورمسلم لیگ ق نے ایک نشست حاصل کی تھی۔باقی37 نشستوں کے انتخابی نتائج کے مطابق 37 میں سے تحریک انصاف نے 13 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
ان میں سے خیبر پختونخوا سے10، سندھ سے 2 اور اسلام آباد سے ایک نشست اپنے نا م کی اور پنجاب کی 5 نشستیں بھی شامل کرلی جائیں تو پی ٹی آئی کی مجموعی نئی نشستیں 18 ہوجاتی ہیں۔ اس طرح نئی 18 اور پرانی8 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف 26 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی نے 6 نشستیں جیتیں اور یہ تمام سیٹیں بلوچستان سے جیتی ہیں جس کے بعد 6 پرانی نشستوں کے ساتھ اس کی 12 نشستیں ہوگئی ہیں۔ایم کیو ایم نے 2 نشستیں حاصل کیں اور پرانے ایک سینیٹرکے ساتھ اس کے3 ممبر ہوگئے ہیں۔مسلم لیگ ق کو سینیٹ کی ایک نشست ملی ہے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی نے8 نئی سیٹیں جیتی ہیں جن میں سے7سندھ سے اور ایک اسلام آباد کی نشست شامل ہے، اس طرح پرانی 12 نشستوں کو ملا کے 20 سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب سے 5 نئی نشستیں حاصل کی ہیں جس کے بعد 13 پرانی نشستوں کے بعد ن لیگ کی ایوان میں 18 نشستیں ہیں اور اب سینیٹ میں تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے 3 نشستیں حاصل کیں ان میں سے 2 نشستیں بلوچستان اور ایک کے پی سے جیتی ہیں، اور 2 پرانی نشستوں کے ساتھ جے یو آئی کی 5 نشستیں ہوگئی ہیں۔
سینیٹ الیکشن 2021 میں 48 نشستوں میں سے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کو مجموعی طور پر 28 نشستیں ملی ہیں جب کہ پی ڈی ایم کو مجموعی طور پر 20 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔سینیٹ الیکشن 2021ء میں وفاق اور تمام صوبوں سے کامیاب ہونے والے سینیٹرز کا مختصر سیاسی تعارف قارئین کی نذر کیا جاتا ہے۔
یوسف رضا گیلانی
یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے 169 ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ۔ 1978میں مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے ممبر بنے 1982میں ضلع کونسل ملتان کے چیئر مین منتخب ہو ئے۔1985 سے لیکر 1993 تک مسلسل 4بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔18دسمبر 2004کواحتساب عدالت راولپنڈی سے نیب ریفرنس میں 10سال قید 10کروڑ جرمانہ ہو ا ۔ 2002میں جیل میں ہونے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہ لے سکے ۔ 2008میں کیسز ختم ہو نے پر پیپلز پارٹی کی ٹکٹ سے ایم این اے منتخب ہو ئے اور ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ 2012میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے انہیں وزارت اعظمی اور اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا گیا ۔
فوزیہ ارشد
اسلام آباد سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر فوزیہ ارشد 174ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئیں ہیں۔بنیادی طور پر فوزیہ ارشدایجوکیشنسٹ اور سوشل ورکر ہونے کی حیثیت سے فلاحی کاموں میں سر گرم رہیں اسی دوران سیاست میں آئیں۔2007ء میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئیں۔
فوزیہ ارشد سینٹرل وویمن ونگ کی جنرل سیکرٹری کے حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ڈی چوک کے 165دنوں کے دھرنے میں فوزیہ ارشد نے خواتین ورکرز کو متحرک رکھا۔
ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے اعظم نذیر تارڑ سینیٹ الیکشن 2021ء میں ٹیکنوکریٹ نشست کیلئے بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں۔ابتدائی تعلیم حافظ آباد سے ہی حاصل کی اوراعلیٰ تعلیم کیلئے 1984ء میں گورنمنٹ کالج لاہور آگئے۔1992ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کا آغاز گوجرانوالہ سے کیا ۔1993ء میں وہ ایل ایل ایم کیلئے ایڈنبرگ یونیورسٹی گئے اور وہاں سے قانون کی ماسٹرز ڈگری مکمل کی ۔1994ء میں انہوں نے معروف وکیل لطیف کھوسہ صاحب کیساتھ وکالت کی پریکٹس شروع کی۔2010سے 2015ء تک وہ پاکستان بار کونسل کاحصہ رہے اور 2015ء میں انہوں نے پاکستان بار کو ہیڈ کیا۔وہ فوجداری مقدمات کے ماہر ایڈووکیٹ سمجھا جاتاہے۔وہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں ۔
عرفان الحق صدیقی
سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ،معروف تجزیہ کار اور کالم نگار عرفان صدیقی کو سینٹ میں لانے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پرویز رشید کی نا اہلی کے بعد کیا۔عرفان صدیقی پنجاب سے مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔عرفان صدیقی راولپنڈی میں پید اہوئے۔
انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کیا۔عرفان صدیقی 25 برس درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ان کا شمار پاکستان مسلم لیگ نواز کے دیرینہ ساتھیوں میں ہوتا ہے ۔1998 میںعرفان صدیقی کو صدر محمد رفیق تارڈ کا‘‘پریس سیکریٹری ’ مقرر کیا گیا ۔ ریڈیوپاکستان میں متکلم، فیچر رائٹر اور ڈرامہ نگار بھی رہے اور 100 سے زائد ریڈیو ڈرامے بھی لکھے۔
عون عباس بپی
عون عباس بپی1977ء کوضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔انہوں نے نوٹنگھم یونیورسٹی سے مواصلاتی علوم میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ عون جنوبی پنجاب میں کھیتی باڑی ، پٹرول پمپ ، ملوں اور تعلیم جیسے متعدد متنوع کاروباروں کے مالک ہیں۔ پی ٹی آئی کے جنوبی پنجاب کے ریجنل سیکرٹری کے عہدے پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
عون عباس نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 7 سال قبل جنوبی پنجاب کے علاقے میں کیا تھااور 2015ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ 2015ء میں شاہ محمود قریشی کے خصوصی مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور اب پاکستان بیت المال کے ایم ڈی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔وہ بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے۔
افنان اللہ خان
مشاہداللہ خان مرحوم کے بیٹےافنان اللہ خان بھی بلامقابلہ پنجاب سے جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ افنان اللہ خان اپنے والد مشاہداللہ خان کے کورنگ امیدوار تھے ۔سینیٹر افنان اللہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف نیویارک سمیت دیگر ممتاز تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔
ان کی تعلیمی قابلیت پی ایچ ڈی ہے اور وہ کتاب Pakistan: The way forward کے مصنف ہیں۔ان کے والد سینیٹر مشاہد اللہ خان بھی سینیٹ کا حصہ تھے۔سینیٹ میں ان کی خدمات یاد رکھنے کے قابل ہیں۔اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ایوانوں میں بھی مشاہد اللہ خان کی سیاسی خدمات کو سراہا جاتا رہے گا۔
سیف اللہ سرور نیازی
پنجاب سے جنرل نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سیف اللہ سرورنیازی بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ سیف اللہ خان نیازی 25 اگست 1973 کو پیدا ہوئے۔انکی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں توتحریک انصاف کے قیام کے بعد سے ہی سیف اللہ نیازی پارٹی کے سینئر ترین اور سب سے زیادہ قابل اعتماد ممبر بنے جنہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سابق ایڈیشنل جنرل سیکریٹری کا عہدہ دیا گیا۔
وہ تاحال پاکستان تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر کے طو ر پر تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچہ میں سیف اللہ سرور نیازی کا بنیادی کردار رہا ہے۔ ان کی سیاسی دانش مندی سے تحریک انصاف پنجاب سمیت پورے پاکستان میں اہم کامیابیاں سمیٹے ہوئے ہے۔
کامل علی آغا
سینیٹر کامل علی آغا 2021سینیٹ الیکشن میں بلا مقابلہ پنجاب سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ 1979ء میں کونسلر منتخب ہوئے بعدازاں1983ء میںلاہور کے چیئرمین اسی سال ڈپٹی لیڈر ہاؤس ، لاہور کارپوریشن ،1990ء میں ڈپٹی مئیر کے عہدوں پر فائز رہے۔1997ء کے عام انتخابات میں پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے اور پارلیمانی سکریٹری برائے امور خارجہ کا عہدہ ملا۔2003ء میں پہلی بار ایوان بالا کے ممبر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔
اس کے علاوہ 2006ء میں وزیر برائے پارلیمانی امور رہے۔اپریل2008ء سے مارچ 2009ء تک مسلم لیگ ق کے صوبائی ورکنگ کمیٹی،سنٹرل ورکنگ کمیٹی پنجاب کے ممبر بھی رہے۔2012ء سے 2018ء پھر پنجاب سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے چیف منسٹر سیکرٹریٹ ، پنجاب کے چیف کوآرڈینیٹر ، اور حکومت پنجاب کے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
اعجاز چوہدری
اعجاز احمد چودھری نے 2007ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔پارٹی نے انہیں پنجاب کے نائب صدر ، مذہبی امور کے ترجمان اور پنجاب کے صدر کے عہدے دیئے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں صوبہ پنجاب کے چار میں سے تین ریجنز میں فتح حاصل کی ۔ انہیں پنجاب میں پی ٹی آئی کے صدر کے اعلی عہدے پر منتخب کیا گیا اور پنجاب میں جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔
انکےسیاسی جدوجہد پر ایک نظر ڈالیں تو جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سےاعجاز احمد چودھری 1990 ءکی دہائی کے اوائل میں لاہور کے ڈپٹی میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور 1998 تک سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے عہدے پر فائز۔پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے انتخابی اتحاد کے خلاف ووٹ دیا اس وقت انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاسی پالیسیوں سے مایوس ہو کر 2006 میں پارٹی چھوڑ دی۔وہ سینیٹ میں بلامقابلہ منتخب ہوئے۔
سعدیہ عباسی
سعدیہ عباسی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن ہیں اور 2021 سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی خواتین کی نشست پر بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہو گئیں ہیں۔انکی سیاسی تا ریخ کا جائزہ لیںتو 2003ءکے سینیٹ انتخابات میںمسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے سینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2018ء سینیٹ الیکشن میں ایک بار پھر وہ مسلم لیگ ن کی خواتین کی نشست پر الیکشن کا حصہ بنیں مگر دوہری شہریت ہو نے کی وجہ سے سینیٹر کی دوڑ سے باہر ہو گئی تھیں۔
ان کا شمار بھی مسلم لیگ ن کی وفادار اراکین میں ہوتاہے۔ سینٹ میں ان کی نمائندگی قانون سازی میں ناصرف مددگار ہو گی بلکہ قانون سازی کا عمل مزید تیز ہوگا۔
ڈاکٹر زرقا تیمور
پنجاب سے تحریک انصاف کی نامزدکرد ہ امیدوار ڈاکٹر زرقا تیمور خواتین کی نشست پر بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہو گئی ہیں۔ڈاکٹر ی کے پیشہ کے اعتبار سےڈرمیٹولوجسٹ ہیں ۔ڈاکٹر زرقا پنجاب یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ہیں انہوں نے 1989 میں گریجویشن کیا ۔2010ء میں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ڈاکٹر زرقا کے خاندان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔
انہوں نے سیاسی سفر کا آغاز میاں میر پی پی 156 سے کیا۔ ڈاکٹر زرقا پی ٹی آئی کی صدر لاہور خواتین ونگ کے طور پر اور پنجاب ویمن ونگ کی میڈیا ہیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکیں ہیں،اب پی ٹی آئی پنجاب کی ڈپٹی انفارمیشن سکریٹری کا عہدہ بھی انکے پاس ہے۔2018ء سینیٹ کے ضمنی الیکشن میں بھی پی ٹی آئی نے انہیں پنجاب سے خواتین کی نشست پر ٹکٹ دیا مگر کامیاب نہیں ہو سکیں۔
بیرسٹر علی ظفر
تحریک انصاف کےسینیٹ انتخاب کے لئے نامزد کئے جانے والے امیدواربیرسٹر علی ظفر بلا مقابلہ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔علی ظفر سابق سینیٹر وقانون دان ایس ایم ظفر کے صاحبزادے ہیں۔سید علی ظفر پیشہ کے لحاظ سے بیرسٹر ہونے کیساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں بھی کافی متحرک ہیں۔1983 میں لندن اسکول آف اکنامکس اور 1984 میں انگلینڈ اور ویلز سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان سے نائب صدر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔ 2015ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر بھی رہے۔نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کی کابینہ میں 2018 کے عام انتخابات میں وزیر برائے قانون و انصاف کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔
پروفیسر ساجد میر
پروفیسر ساجد میر مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر ہیں اور 2015ء میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ پہلی بار 1994ء میں پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر بنے۔1997ء میں ایک بار پھر ن لیگ کے ٹکٹ سے سینیٹر بنے اور 2003ء میں بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹ کا حصہ بنے۔2009ء میں وہ دوبارہ ن لیگ کے ہی سینیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔2015ء کے سینیٹ الیکشن میں انہوں نے ایک بار پھر سے میدان مارا اور ن لیگ کے سینیٹر منتخب ہوئے۔
سینیٹ الیکشن 2021ء میں ایک بار پھر وہ ن لیگ کے ٹکٹ سے میدان میں اترے ہیں مگر اس بار وہ جنرل نشست کیلئے منتخب ہوئے۔وہ بھی پنجاب کے باقی اراکین کی طرح بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ۔
تاج حیدر
سینیٹر تاج حیدر سندھ اسمبلی سے جنرل نشست پر 20ووٹ لے کر پیپلزپارٹی کے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔تاج حیدر 8 مارچ 1942 بھارت کی ریاست راجستھان میں پیدا ہوئے۔ مقامی ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1959 ء میںکراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں ریاضی کی تعلیم حاصل کی اور 1962 میں ریاضی میں بی ایس سی (آنرز) سے گریجویشن کیا۔1967کے سوشلسٹ کنونشن میں شرکت کے دوران پیپلز پارٹی کے بانی ممبروں میں شامل تھے اور انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کی حمایت کی۔1965میں کراچی یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1979 سے 1985 تک پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے سیاسی ڈراموں کی تحریر کے لئے بھی مشہور ہیں۔پارٹی کی طرف سے2010میں پیپلز پارٹی کے جنرل سکریٹری کا عہدہ دیا گیا ۔
فاروق ایچ نائیک
فاروق ایچ نائیک سندھ اسمبلی میں ٹیکنو کریٹ کی نشست پر 61ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔گریجوایشن کے بعد سندھ مسلم لاء کالج سے قانون میں ایل ایل بی کی ڈگری اور جامعہ کراچی کے پوسٹ گریجوایٹ سکول سے معاشیات میں ایم اے کیا۔انہوں نے سیاسی جدوجہد کا آغاز 1971 میں کیا۔ سندھ حکومت کے ڈائریکٹوریٹ لیبر اینڈ سوشل ویلفیئر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔2003ء میں پہلی بار صوبہ سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے 3 سالہ مدت ملازمت کے بعد اپریل 2012 میں انہیں وفاقی وزیر قانون و انصاف کی حیثیت سےتقررکیا۔ فاروق ایچ نائیک تین دہائیوں سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ماہر قانون کی حیثیت سے وابستہ ہیں ۔آصف زردای مشکل سالوں میں ہمیشہ ان سے قانونی امور اور دیگر امور پر صلاح مشورہ کرتے رہے۔
سلیم مانڈوی والا
سینیٹ الیکشن میں سلیم مانڈوی والا 20ووٹ لے کر جنرل نشست پر سندھ اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا 25جنوری1959ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1981 ء میں امریکہ کے فورٹ ورتھ اسکول آف ایوی ایشن سے گرایجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔سلیم مانڈوی والا تعلیم مکمل کرنے کے بعد خاندانی کاروبار سے منسلک ہوئے گئے۔
مانڈوی والا خاندان کی1921سے کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں کاروبار میں ہے۔2012ء میں صدرزرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کو سینیٹ سے استعفیٰ دینے کے بعدانکی خالی ہونے والی نشست پر مانڈوی والاکو سندھ سے سینیٹ کے لئے پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا ۔ سلیم مانڈوی والا 8 نومبر 2012کو بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ۔ سینیٹ میں تین سال کی مدت ملازمت کے بعد مسٹر مانڈوی والا 11 مئی 2015 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ، محصول ، معاشی امور ، شماریات اور نجکاری منتخب ہوئے تھے۔
فیصل واوڈا
سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا سندھ اسمبلی سے پی ٹی آئی کی جنرل نشست پر20 ووٹ لے کر پہلی بار ایوان بالا کا حصہ بنے ہیں۔فیصل واوڈا تعلیمی لحاظ سے گریجوایٹ ہیں جبکہ پیشے کے لحاظ سے کاروبار سے منسلک ہیں۔ 2018 ء کے جنرل الیکشن میں این اے 249سے پہلی بار انتخابی عمل کا حصہ بنے اوراس حلقے میں تحریک انصاف کے 35ہزار ووٹروں نے ووٹ دے کرانہیں ایم این اے منتخب کیا۔2018 کے انتخابات میں اس حلقے کی اہم بات یہ تھی یہاں سے پنجاب کے وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف انکے مد مقابل تھے۔رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں 5اکتوبر 2018 کو وزیر برائے آبی ذخائر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
شیری رحمان
شیری رحمان جنرل نشست پر 22ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئیں ہیں ۔وہ 21 دسمبر 1960کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ والد وکیل جبکہ والدہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون نائب صدر تھیں۔ امریکہ کے سمتھ کالج اور پھر یونیورسٹی آف سسیکس سے آرٹ ہسٹری اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی۔2015میں پاکستان کی پہلی خاتون سینیٹ اپوزیشن لیڈرمنتخب ہوئیں۔ 2011سے 2013 تک امریکہ میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکیں ہیں۔2002میں وہ باضابطہ طور پر پاکستان کی پارلیمان میں خواتین کی مخصوص نشست کے ذریعے رکن بنیں۔ 2008میں وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئیں بعد ازاں2009میں انہوں نے کابینہ کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری جبکہ 2011 میں پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے چیئرپرسن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔
جام مہتاب حسین ڈہر
جام مہتاب ڈہریکم جنوری1953ء کو ضلع گھوٹکی کے گاؤں بشیر آباد میں پید ا ہوئے۔انہوں نے لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز سے بیچلر آف سرجری ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔انکی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے ہے۔انہوں نے 2008 سے 2013 تک آبادی ، بہبود اور محصولات کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ 2002 سے 2007 اور 2008 سے 2013 تک سندھ اسمبلی کے ممبر صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
حسین ڈہر 2013 سے نومبر 2014 تک وزیر برائے خوراک و صحت کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔2021سینیٹ الیکشن میں جام مہتاب 19ووٹ لے کر جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔
فیصل سبزواری
فیصل سبز واری ایم کیو ایم پاکستان کے اہم سیا سی رہنما سندھ اسمبلی سے 22ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔2002ء اور 2008ءکے عام انتخا بات میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔سندھ کا بینہ میں صوبا ئی وزیر بر ائے یوتھ افئیرز کی وزا رت سو نپی گئی ،اسکے علا وہ اس دوران سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں ۔2013ء انتخا بات میں فیصل سبز واری نے اسی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیا اور اس مرتبہ پا کستان تحریک انصا ف کے امید وار سیف الرحمن کو شکست دے کر اپنی نشست کو بر قرار رکھا ۔
ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں اپنا پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ۔اسکے علا وہ سندھ اسمبلی میں قا ئد حزب اختلاف بھی رہے اور ساتھ ساتھ وزیر اعلی سندھ کے مشیر برا ئے یوتھ افیئرز کی بھی خدمات سر انجام دےچکے ہیں ۔
شہادت اعوان
پیپلز پاٹی کے امیدوار شہادت اعوان سندھ اسمبلی سے 19ووٹ لیکر پہلی بار جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ شہادت اعوان 1952ء میں پیدا ہوئے ۔ کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کی۔ 1981میں بطور وکیل وکالت کا آغاز کیا۔
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد رہنماؤں کی عدالت میں نمائندگی بھی کی ۔3 نومبر 2007کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہوئی تو پراسیکیوٹر جنرل رانا شمیم کو سندھ ہائی کورٹ کا جج مقرر کیاگیا جس کے باعث پراسیکیوٹر جنرل کا عہدہ خالی ہوا ۔
سندھ حکومت نے شہادت اعوان ایڈووکیٹ کو تین سال کے لئے فوجداری استغاثہ سروس کے محکمہ میں سندھ پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے پر مقرر کیا۔ انہیں پیپلزپارٹی سندھ کے وفادار ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قانون دان ہونے کی وجہ سے سینیٹ میں ان کی نمائندگی قانونی عمل میں بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
سیف اللہ ابڑو
سندھ سے تحریک انصاف کے سیف اللہ ابڑوٹیکنو کریٹک نشست پر 57ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے۔ماضی میں ان کے پیپلزپارٹی کے ساتھ انکے قریبی روابط رہے۔ذرائع کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے قریبی تعلقات کی وجہ سے لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 8 کی ٹکٹ کے خواہشمند تھے۔ پارٹی کی جانب سے سہیل انور سیال کو ٹکٹ دے دیاگیا جس کے بعد انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا ۔
علاوہ ازیں این اے 201لاڑکانہ2 سے آزاد حیثیت میں قریبا 5ہزار ووٹ لے کر حلقے میں تیسرے نمبر پر آئے۔ انتخابات کے بعد انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔
سیف اللہ ابڑو کا شمار لاڑکانہ کی مالی طور پر مستحکم شخصیات میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ انہیں سندھ ہائی کورٹنے الیکشن کیلئے نااہل قرار دیا مگر سپریم کورٹ نے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی تھی۔
خالدہ اطیب
ایم کیو ایم پاکستان کی سینئر رہنما خالدہ اطیب سندھ اسمبلی سے خواتین کی نشست پر 57ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئیں ہیں۔خالدہ اطیب کی ایم کیو ایم سے 1987 سے سیاسی وابستگی ہے۔ انکی تعلیمی قابلیت ایم اے پولیٹیکل سائنس، بی ایڈ، اور ایل ایل بی ہے۔
خالدہ اطیب سیاسی جدوجہد میں ایم کیو ایم کے مختلف شعبہ جات میں ذمے داریاں انجام دے چکی ہیں جن میں سندھ تنظیمی کمیٹی، شعبہ اطلاعات، خطوط کمیٹی شامل ہیں، موجودہ ذمہ داری کے حوالے سے وہ شعبہ خواتین کی جوائنٹ انچارج ہیں۔
ایم کیوایم پاکستان خواتین کی خواتین ونگ میں وہ یکساں مقبول ہیں اور خواتین پارٹی ورکر کیلئے بے لوث خدمات سرانجام دیتی ہیں۔سینیٹ میں ان کی نمائندگی نہ صرف سیاسی بلکہ قانونی عمل تیز ہونے میں مددگار ثابت ہوگی۔
پلوشہ خان
پاکستان پیپلزپارٹی کی پلوشہ خان سندھ اسمبلی سے خواتین کی نشست پر 60ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئیں ہیں۔16 اپریل 1976 کو چکوال میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے سیاست کا آغاز 2008ء کے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا۔2008ء میں پیپلزپارٹی نے پلوشہ کوخواتین کی مخصوص نشست پر نمائندگی دی۔
اس دوران پارٹی نے انہیں خارجہ امور ، ماحولیات اور نوجوانوں کے امور کی قائمہ کمیٹی سمیت کئی ممتاز عہدے سونپے۔ 2013ء میں دوسری بار پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 4نومبر 2018 کو ، وہ پی پی پی کی ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ 2016 میں انکی شادی ظہیر الاسلام سے ہوئی جو اس سے قبل آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
شبلی فراز
شبلی فراز سینیٹ انتخاب میں جنرل نشست پر 19ووٹ لے کر ایک بار پھر تحریک انصاف کے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ شبلی فراز معروف شاعر احمد فراز کے بیٹے ، اورکے پی اسمبلی کے سابق اسپیکر بیرسٹر مسعود کوثر کے بھتیجے ہیں۔ س سے قبل شبلی 26 اگست 2018 سے لیکر 04 جون 2020 تک سینٹ آف پاکستان کے قائد ایوان کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
وہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر ممبر ہیںجبکہ پیشے کے لحاظ سے ایک سرمایہ کاری بینکر ہیں۔ وہ پی آئی اے کمرشل پائلٹ اور پھر سرکاری ملازم بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 2002 میں کوہاٹ ضلع میئر کے لئے الیکشن لڑا اور ان کے چچا بیرسٹر سید مسعود کوثر خیبر پختونخوا کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ2015 سے 2021 تک کی مدت کے لئے خیبر پختونخوا کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
محسن عزیز
سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کی جنرل نشست پر محسن عزیز 19ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے۔سابق سینیٹر محسن عزیز 2021ء میں سینیٹ کی نشست سے ریٹائرڈ ہوئے۔ سینیٹر محسن عزیز خیبر پختونخواہ کی جنرل نشست پر 2015-21 کے دوران 6 سال کی مدت کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر اور پہلی بار پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے منتخب رکن تھے۔
انکا تعلق پشاور کے ایک مشہور کاروباری / صنعت کار خاندان کی تیسری نسل سےہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوںنے خاندانی کاروبار میں قدم رکھنے سے پہلےجاپان سے انتظامیہ اور صنعتی تربیت حاصل کی۔
مولانا عطاء الرحمان
2021سینیٹ الیکشن میں مولانا عطاء الرحمان ایک بار پھر جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ عطا ء الرحمان25جولائی1965ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے ۔مولانا عطا ء الرحمان جمعیت علماء اسلام (ف) کے بانی مفتی محمود کے بیٹے اور اس وقت کے جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کے بھائی ہیں۔1998میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے انہیں پارٹی الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا جبکہ اسی سال خیبر پختونخو کے جوائنٹ سکریٹری جے یو آئی ف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2002 میں خیبر پختونخوا کے لئے پارٹی الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اسی سال ضلعی ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے پارٹی صدر امیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2006 میں وہ خیبر پختونخوا کے لئے نائب صدر، نائب امیر جے یو آئی منتخب ہوئے۔مولانا عطا ء الرحمان2015ء تا 2021ءتک جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر رہے۔
لیاقت خان ترکئی
سینیٹر لیاقت ترکئی کے پی کے اسمبلی سے تحریک انصاف کی جنرل نشست پر19ووٹ لے کر دوسری بار سینیٹر منتخب ہوئے۔انکے بیٹے شہرام تراکئی خیبرپختونخوا میں صوبائی وزیر ہیں۔ 2015 سے 2021ء تک کی مدت کے لئے وہ ایوان بالا کے رکن رہ چکے ہیں۔
لیاقت تراکئی مارچ 1990ء سے ترا کئی گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین ، مارچ 1986ء سے امپیریل سگریٹ انڈسٹریز کے چیئرمین مارچ 2008ء سے گلوریا جینز کا فیز انٹر نیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر نومبر 1999ء سے کرائون پلازہ ہوٹلز کے سی ای اوہ بھی رہے۔لیاقت ترکئی کے بھائی اور شہرام ترکئی کے چچا عثمان ترکئی بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ترکئی خاندان کے بیشتر افراد صوبائی اسمبلی کیساتھ ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر ہیں۔
ڈاکٹر ہمایوں مہمند
سینیٹر ہمایوں مہمند کے پی کے اسمبلی میں ٹینکوکریٹ کی نشست پر 49ووٹ لےکرپاکستان تحریک انصاف کے پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔1988 میں پشاور یونیورسٹی کے ایوب میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ ڈی آر ہمایوں مہمند نے ایڈنبرا کے رائل کالج سے ایف آر سی ایس کیا۔
انہوں نے پلاسٹک سرجری میں اپنے کیریئر کو برطانیہ کے انتہائی معزز تدریسی اسپتالوں میں جاری رکھا۔2013میں ڈاکٹر ہمایوں نے"اکیڈمی آف ایستھٹک میڈیسن اینڈ سرجری" کی کی بنیاد رکھی ۔2017 ء میں اپنے ساتھی ڈاکٹر ارمیلا کے ساتھ ، بین الاقوامی اور نیشنل فیکلٹی کے ساتھ پاکستان میں پہلی بار بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کا پلس پوائنٹ تھا 350فلٹرز ، بوٹوکس ، تھریڈز اور پی آر پی کی ڈاکٹروں نے تربیت لی۔
ہدایت اللہ خان
عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی وزیر زراعت و لائیو اسٹاک حاجی ہدایت اللہ خان جنرل نشست پر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ ہدایت اللہ خان پارٹی کے مرکزی سیکرٹری مالیات کے عہدے پر فارئض سر انجام دے رہے تھے۔ہدایت اللہ خان کا تعلق ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھتے ہیں۔2018 ء کے عام انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی پشاور کی نشست سے میدان میں اترے مگر تحریک انصاف کے رکن عارف خان سے شکست کھاگئے اور رنر اپ رہے۔
عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت سے پہلے وہ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ ہدایت اللہ خان کا سیاسی تجربہ سینٹ میں قانون سازی کے عمل کو بہتر بنانے کیلئے مدد گار ثابت ہوگا۔
گرودیپ سنگھ
پاکستان تحریک انصاف کے گرودیپ سنگھ خیبر پختونخوا اسمبلی سے 102 ووٹ لے کر پہلے اقلیتی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ گردیپ سنگھ 1978 میں ضلع سوات کے شہر مینگورہ میں پیدا ہوئے اور آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
گاڑیوں کے شوقین سردار گردیپ سنگھ 2005 میں شانگلہ کے علاقہ چیکیسر سے اقلیتی کونسلر بھی منتخب ہوئے جبکہ ان کے والد معروف تاجر اور کاروباری شخصیت تھے ۔سردار سورن سنگھ کے قتل کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور تب سے اب تک پی ٹی آئی مرکزی مائنارٹی ونگ کے طور پر نائب صدر کام کر رہے ہیں۔ وہ پہلی بار خیبر پختونخوا سے سینٹ کی نشست کیلئے منتخب ہوئے ہیں۔
فیصل سلیم
تحریک انصاف کے امیدوار فیصل سلیم جنرل نشست پر سینیٹ کا رکن منتخب ہوئے ہیں۔فیصل سلیم کا تعلق ضلع مردان کے سیاسی گھرانے سے ہے۔بنیادی طور پر صنعت کار کے شعبے سے وابستہ ہیں۔انکے چچا حاجی نسیم الرحمان 1997ء کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔
سینیٹر ذیشان خانزادہ انکے کزن ہیں جبکہ دونوں سینیٹرز فیصل سلیم اور ذیشان خانزادہ ایک ہی علاقے سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک سےانکے قریبی تعلقات ہیں۔تحریک انصاف نے انہیں کے پی کے میں بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئر مین کا عہدہ بھی دیا۔ فیصل سلیم سابق صوبائی وزیر عاطف خان کےبھی قریبی رشتہ دار ہیں۔
دوست محمد محسود
جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے دوست محمد ٹیکنوکریٹ کی نشست پر59ووٹ لے کر تحریک انصاف کے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔دوست محمد کا شماروزیر اعظم عمران خان کے درینہ ساتھیوںمیں ہوتا ہے۔2016 میں دوست محمد محسود کو پی ٹی آئی فاٹا کا چیف آرگنائزر بنایا گیا تھا۔
انہوں نے 2013 اور 2018 کے میں پی ٹی آئی ٹکٹ پر جنوبی وزیرستان سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔دوست محمد محسود کمشنر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں جبکہ ان کے بیٹے ریاض محسود اس وقت ہزارہ ڈویژن کے کمشنر ہیں۔امید کی جارہی ہے کہ سینٹ میں ان کا انتظامی تجربہ جمہوریت کیلئے مفید ثابت ہوگا۔
ذیشان خانزادہ
سینیٹر ذیشان خانزادہ اس بار بھی سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ذیشان خانزادہ کے والد خانزادہ خان پیپلزپارٹی کے سینیٹرز رہ چکے ہیں۔ انکےوالد نے اکتوبر 2019ء میں پیپلزپارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ذیشان خانزادہ اپنے والد کی نشست پر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سینیٹ کا رکن منتخب ہوئے تھے۔ذیشان خانزادہ نے سیاست کا آغاز ہی تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت سے کیا جبکہ انکے والد تب پیپلزپارٹی کے سینیٹرز تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلام آباد سے حاصل کی جبکہ 2007ء میں بی بی اےکی ڈگری یارک ونیورسٹی سے حاصل کی۔ذیشان خانزادہ سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب بزنس مین بھی ہیں۔
ثانیہ نشتر
ثانیہ نشتر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کے پی کے اسمبلی سے خواتین کی نشست پر 56ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئیں۔ثانیہ نشتر پنجاب کے سابق گورنر سردار عبدا لرب نشتر کی پوتی ہیں۔ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی جبکہ نشتر خیبر میڈیکل کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ 1991 میں خیبر ٹیچنگ اسپتال میں ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد کالج آف فزیشنز اینڈ سرجن آف پاکستان کاحصہ بنیں۔ 1994میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں بطور سپیشلسٹ امراض قلب کی حیثیت سے شامل ہوگئیں اور 2007 تک اسی انسٹیٹیوٹ سے منسلک رہیں۔ 1999 میں پی ایچ ڈی کنگز کالج لندن سے کی ۔ 1998 میں اسلام آباد میں قائم ہیلتھ پالیسی تھنک ٹینک کی بنیاد رکھی۔ 2014 کے بعد وہ ڈبلیو ایچ او کمیشن کی شریک چیئرپرسن ہیں ۔ثانیہ نشتر وفاقی وزیر ، اور احساس پروگرام کی چیئرپرسن ہیں۔
فلک ناز چترالی
تحریک انصاف کی اہم کارکن فلک ناز خواتین کی مخصوص نشست پر 51 ووٹوں کے ساتھ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئیں۔فلک ناز کا تعق ضلع چترال سے ہے۔ محترمہ فلک ناز چترالی کی جائے پیدائش مستجپاندہ چترال ہے۔ ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد آپ پشاور حیات آباد منتقل ہو گئیں۔ تب سے لے کر آج تک وہ حیات آباد پشاور میں رہتے ہوئے چترالیوں کی خدمت کی حتی المقدور کوشش کر رہی ہیں۔
آپ درس و تدریس کے پیشے سے بھی منسلک رہی ہیں۔ فلک نار چترالی اس وقت پی ٹی آئی خواتین ونگ ملاکنڈ ڈویژن کی جنرل سیکرٹری ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے فلک ناز چترالی عملی سیاست میں کافی فعال ہیں۔ انہوںنے آج سے دو دہائی پہلے وزیراعظم عمران خان سے متاثر ہوکر سیاست میں قدم رکھا۔ فلک ناز چترالی صاحبہ پی ٹی آئی خواتین ونگ میں کافی متحرک خاتون ہیں۔
سرفراز بگٹی
میر سرفرازبگٹی 1980 کو پید اہوئے ہیں ۔ان کا تعلق بگٹی قبائل میں مسوری خاندان سے ہے ۔وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر نائب صدر اور پارٹی ترجمان ہیں۔میر سرفراز بگٹی نے پی بی 24 سے 2013 کے عام انتخابات میں حصہ لے کر اکثریت حاصل کی اور بلوچستان کے وزیر داخلہ منتخب ہوئے ۔الیکشن میں انہوں نے آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔
اس سے قبل وہ 2015ء سے 2021ء تک بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔2021ء سینیٹ الیکشن میں ایک بار پھر وہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔
سعید احمد ہاشمی
سابق سینیٹر اور صوبائی وزیر سعید ہاشمی نے پارلیمانی سیاست کا آغاز 1988 کے جنرل الیکشن سے کیا۔ اس الیکشن میں کامیابی کے بعد انہیں صوبائی وزیر کا عہدہ ملا۔1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں بھی انہیں صوبائی نشست پر کامیابی ملی ۔2006ء سینیٹ الیکشن میں پہلی بار مسلم لیگ ق کے ٹکٹ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے۔
2018ء کے جنرل الیکشن میں وہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ کوئٹہ 6سے بی این پی کے ٹکٹ پر انتخاب کا حصہ بنیں مگر4ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔سعید احمد ہاشمی 2021 سینیٹ الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ سے دوسری بار پھر ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ایوان بالا کا حصہ بنے ہیں۔
مولانا عبد الغفور حیدری
مولانا عبدالغفورحیدری قلات میں 1957میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم اوستہ محمد کے ایک مدرسہ میں حاصل کی بعد ازاں بلوچستان اور سند ھ کے مختلف دینی درسگاہوں میں حاصل کی۔ 1970میں جمعیت طلباء اسلام سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور قلات کے صدر منتخب ہو ئےاورصوبائی صدر بھی رہے ۔ 1983 ایم آر ڈی کی تحریک میں پہلی مرتبہ گرفتار ہو ئے ۔ 1990 کےنتخابات میں پہلی بارایم پی اے منتخب ہو ئے اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے وزیر رہے، 1993 میں وہ ایم این اے منتخب ہوئے اور1994 میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل بنے۔ 2002 میں ایک بار پھر ایم این اے بنے۔ 2009 میں وہ ایک سال کیلئےسینیٹر بنے۔2011میں سینٹ اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ 2013 میں وفاقی وزیر مملکت بنے اور مارچ 2015 میں تیسری بار سینیٹر منتخب ہو ئے اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پرفائز ہوئے۔ حالیہ الیکشن میں وہ ایک بار پھر سینیٹر منتخب ہوئے۔
منظور احمد کاکڑ
سینیٹ آف پاکستان کے رکن منظور احمد کا کڑ نے سیاست کا آغازپختونخوا ملی عوامی پارٹی سے کیا ۔ انہوں نے ایم اے اورقانون کی ڈگری حاصل کی ۔وہ کاکڑ کے یازینزئی قبیلے کے رہنما ہیںاور ضلع کوئٹہ کے سابق نائب ناظم رہ چکے ہیں۔آپ نے 2013کے عا م انتخابات پی بی 6 سے118ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔2015ء سینیٹ الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
سینیٹ الیکشن 2021ء میں ایک بار پھر وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ منظور احمد کاکڑ کے وسیع تجربے سے ناصرف سیاسی ڈھانچے کو فائدہ ہو گا بلکہ قانون سازی کے عمل میں بھی بہتری آئے گی۔
کامران مرتضیٰ
کامران مرتضی جمعیت علما ء اسلام ف کے ٹکٹ پر ایوان بالا میں ٹیکنو کریٹ نشست پر سینیٹر منتخب ہو ئے ہیں۔کامران مرتضیٰ جمعیت علماء اسلام کے قانونی معاملات میں اعلی قیادت و پارٹی کی رہنمائی کرتےہیں۔2003ء سے 2009ء تک وہ متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ سے جنرل نشست پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔1988ء میں انہوں نے وکالت کاآغاز کیا جبکہ1999ء میں انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کا لائسنس حاصل کیا۔
2000ءسے2004 ءتک وہ بلوچستان بار کونسل کے ممبر،چیئرمین بارہ ایگزیکٹو کمیٹی ، بلوچستان بار کونسل کے عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔2013ء کی قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام نے انکی اہلیہ عالیہ کامران کو خواتین کی مخصوص نشست پر ممبر اسمبلی بنایا۔
عمر فاروق
سینیٹر عمر فاروق عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائزہیں۔2018ء کے عام انتخابات میں وہ صوبائی حلقے پی بی 27کوئٹہ 4سے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی عمل کا حصہ بنے مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔حالیہ سینیٹ الیکشن میں عمر فاروق پہلی بار سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
انہیں منتخب کروانے کیلئے بلوچستان اسمبلی کے ممبران نے بھر پور حمایت کی اور انہیں کامیاب کروایا۔ اے این پی چونکہ اسمبلی میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہے جس کے باعث مطلوبہ تعداد کم ہونے کے باوجود اے این پی نے یہاں سے ایک نشست حاصل کی ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کا انتخاب سینٹ کیلئے کس حد تک فائدہ مند ہوگا۔
پرنس آغا عمر احمد زئی
بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما خان آف قلات پرنس آغا عمر احمد زئی جنرل نشست پر پہلی بار ایوان بالا کا حصہ بنے ہیں ۔پرنس آغا عمر احمد زئی خان آف قلات آغا میر سلیمان داود کے بیٹے ہیں ۔ انکے والد آغا میر سیلمان دواد خان سابقہ ریاست قلات کے خان میر احمد کے پوتے ہیں اور اس ریاست کے 35ویں لیڈر ہیں۔
نواب اکبر بگٹی کی وفات کے بعد وہ بر طانیہ چلے گئے اور وہاں خود ساختہ زندگی گزارنے لگے ۔ریاست قلا ت کے خاندان کے دوسرے افراد نے بھی سیاست میں حصہ لیا اور خواتین نے بھی سیاست میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ پرنس آغاعمر احمد زئی کی سینٹ میں بلوچستان کی نمائندگی صوبے کی پسماندگی کوکم کرنے میں نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
عبد القادر
عبدالقادر کا تعلق کراچی سے ہے اور مالی طور پر مستحکم شخصیت ہیں۔ عبدالقادر وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے قریبی دوست ہیں۔ انہیں بلوچستان سےتحریک انصاف نے ٹکٹ دیا اور پی ٹی آئی بلوچستان کا نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی قیادت نے بھرپور احتجاج کیا جس کے بعد پی ٹی آئی نے ان سے اپنا ٹکٹ واپس لے لیا اور انہیں بی اے پی کا ٹکٹ دیا گیا ۔
بعد میں بی اے پی اور پی ٹی آئی کے ووٹوں سے سینیٹر منتخب ہوئے ۔میڈیا خبروں کے مطابق ان کے انتخاب کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ۔مگر ووٹوں کے اعداد و شمار کے تحت سینیٹ میں ان کی فتح کی مہر ثبت ہو گئی۔
دھنیش کمار
سینیٹر دھنیش کمار بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر 40ووٹ لے کر پہلی مرتبہ اقلیت کی مخصوص نشست پرسینیٹر منتخب ہوئے ہیں ۔ دھنیش کمار 2جنوری 1976ء کو ضلع لسبیلہ میں پیدا ہوئے جبکہ ان کی تعلیمی قابلیت گریجوایشن ہے۔وہ 2018کے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی سے اقلیتی رکن منتخب ہوئے بعدازاں انہیں صوبائی وزیر برائے اقلیت کے عہدے پر فائزکیا گیا ۔
صوبائی وزیر کے عہدے سے مستعفی ہوکر سینیٹر منتخب ہوئے ،ان کا شمار وزیراعلی بلوچستان جام کمال کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ صوبائی وزیر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد سینیٹ میں کس حد تک پارٹی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
محمد قاسم رونجھو
محمد قاسم رونجھو کی سیاسی وابستگی ابتداء سے ہی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ سے ہے۔1997ء کے انتخابات میں صوبائی حلقے پی بی 34سے بی این پی کے ٹکٹ پر 10ہزار ووٹ لے کر رنر اپ قرار پائے تھے۔محمد قاسم رانجھو کاتعلق بھی وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کے ضلع لسبیلہ کی تحصیل بیلہ سے ہے۔
بلوچستان اسمبلی سے محمد قاسم جنرل نشست پر 9ووٹ لے کر بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پرسینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔محمد قاسم سردار اختر مینگل کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں انکے بیٹے جہانزیب رونجھو بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے سر گرم رکن ہیں۔ وسیع سیاسی تجربہ رکھنے والے محمد قاسم رونجھو سینیٹ میں قانون سازی کے عمل کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
نسیمہ احسان
سینیٹر نسیمہ 2021سینیٹ الیکشن میں خواتین کی نشست پر 21ووٹ لے کر دوسری بار سینیٹر منتخب ہوئیں ہیں۔ نسیمہ احسان آزاد حیثیت میںسینیٹر منتخب ہو کر بعد میں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)میں شامل ہوئیں ہیں۔ماضی میں 2012ءسے2018ء تک بی این پی(عوامی) کی سینیٹر کی حیثیت سے ایوان بلا میں نمائندگی کر چکیں ہیں۔ انکے شوہر صوبائی اسمبلی حلقہ بی پی 46 کیچ2سے بی این پی(عوامی) کے رکن ہیں۔
سید احسان شاہ نے1985 میں بلوچستان یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، ایک بزنس مین ہیں۔ وہ سابقہ ادوار میں سینیٹ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ عام انتخابات 2002 میں ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ سیاسی طور پر قومی اتحاد (این اے) سے وابستہ تھے۔
ثمینہ ممتاز
سینیٹرثمینہ ممتاز بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر27ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔انکا تعلق بھی وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کے ضلع لسبیلہ کی تحصیل حب سے ہے۔ثمینہ ممتاز کے شوہر علی حسن زہری مسلم لیگ ن کے لسبیلہ کے صدر بھی رہے ہیں۔ثمینہ ممتازکے شوہر علی حسن زہری ماضی میں مسلم لیگ ن کے سرگرم رکن رہے ہیں اور یہاں کی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
ان کے خاندانی پس منظر کو دیکھا جائے تو وہ بلوچستان کی سیاست پر نہ صرف گہری نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ بڑی سیاسی تبدیلیو ں کا باعث بھی رہے ہیں۔