• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جون ایلیا

افلاطون نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف "جمہوریہ" میں ایک نظام تعلیم و تربیت مرتب کیا تھا ،جس کی رو سے تین سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو قصوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہئے۔ اردو کے مدیران رسائل قابل داد ہیں ،جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے ، صورت حال یہ ہے کہ ہمارا ادب ، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔جدھر دیکھئے دیوان داغ اور فسانہ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقید غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ ، بالغ النظر اور ارتقاء پذیر سماج کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے۔

آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں ؟اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں ،غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے ؟

یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بےمایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی ، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادب عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھ صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

لیجئے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلہ" مرتب ہو گیا۔ مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔اسی لیے اب "مدیر" کے بجائے احتياطاً "مرتب" کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فنکاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل ازکار رفتہ ہو چکے ،نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس ، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اب ان کا حشر کیا ہوگا - چلئے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورت حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، اگرچہ ، بے حد اہم رخ سہی لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناسازگار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روز ناموں کی رفتار ترقی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہنچ جائیں گے۔

ماہناموں کو غور کرنا چاہئے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہنامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کرمرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بےگانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

قارئین دو قسم کے ہیں۔

ایک وہ جو صرف جنسی جاسوسی اور فلمی تحریروں سے بہل سکتے ہیں۔

دوسرے وہ جو مذہبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معلوماتی، ادبی اور علمی مضامین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مختلف سطح کے افراد شامل ہیں۔ ادبی اور علمی رسائل کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کے قارئین کی تعداد زیادہ ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اردو کے فلمی رسالے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے، دراں حالاں کہ ان کا حال بہت ابتر ہے۔ پاکستان میں اس قبیل کے مواد کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاں کچھ سال پہلے تک پوری قوم سیاسی بے یقینی، نفسیاتی پیچیدگی، سماجی بے ضمیری، ذہنی انتشار اور اخلاقی بدحالی میں مبتلا تھی۔ اس کا رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ سنجیدہ مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے۔

انقلاب کے بعد اس صورت حال میں نمایاں فرق ہوا ہے۔ عمل جرائم پیشگی کے ساتھ قوم کی ذہنی جرائم پیشگی بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ اب اخباروں میں بھی علم و ادب سے متعلق پہلے سے کہیں زیادہ خبریں شائع ہوتی ہیں۔

ادبی رسائل اس ماحول سے پوری طرح توانائی حاصل کریں۔ محنت سے کام لیں اور ادبی و علمی افادیت کو ملحوظ رکھیں اور اس خیال کو ترک کر دیں کہ ادبی رسائل کو پڑھا نہیں جاتا، پڑھا جاتا ہے، اگر سلیقے سے پڑھایا جائے۔ ہم جن مضامین کو ادبی سمجھ کر چھاپتے رہے ہیں انہیں بمشکل ہی ادبی کہا جا سکتا ہے۔ اب آپ غالب کے سماجی شعور کا عرفان عطا کرکے کوئی ادبی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے خود سماجی شعور پیدا کرنا ہوگا اور ادبی ملائیت اور دقیانوسیت کو ترک کر کے ماہناموں کو سائنسی حقیقت پسندی، وسیع النظری، مسائل شناسی ، معاشرہ آفرینی اور اجتہادی و اختراعی اولوالعزمی کا نمائندہ بنانا ہوگا۔ بصورت دیگر اردو کی ادبی صحافت کے لیے اب کوئی گنجائش باقی نہیں۔

امید ہے کہ مدیران رسائل ہماری ان معروضات پر سنجیدگی سے غور کریں گے ، ممکن ہے کہ ہم نے صورت حال کا غلط اندازہ لگایا ہو تو انھیں چاہیے کہ وہ صحیح اندازہ قائم کریں اور اردو کی ماہنامہ صحافت کو آگے بڑھائیں۔ ہمارے ذہن میں صحافت کا عالمی معیار ہونا چاہئے ، یہ عہد بدنصیبی یا خوش نصیبی سے فصیلوں اور حصاروں کا عہد نہیں، اب تو پوری دنیا ایک صحن میں بیٹھی ہوئی ہے۔ 

آج جو چیز بھی پیش کرنا ہے، عالمی معیار کو ملحوظ رکھ کر پیش کرنا ہے۔ اور اب تو ہمیں اور بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اس لیے کہ اب تو اردو سے یہ توقع قائم کی جا رہی ہے کہ وہ ایشیا کی مشترک زبان کا درجہ حاصل کر لے گی اور یہ توقع بالکل حق بجانب ہے۔

تازہ ترین