• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خدشات اب حقیقت بننے جا رہے ہیں کہ آپ اپنے گھر میں رہتے ہوئے ٹونٹی سے پانی حاصل نہ کرسکیںکیونکہ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جو پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ زیرِزمین پانی کی سطح میں بتدریج کمی آ رہی ہے تو گزشتہ چند مہینوں کے دوران برف نہ پگھلنے اور بارشیں نہ ہونے کے باعث تربیلا اور منگلا ڈیموں میں پانی کی سطح میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اگر رواں برس اپریل تک موسم نے اپنے تیور نہ بدلے تو ملک کو پینے کے صاف پانی کی 30سے 40فی صد تک قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس صورتِ حال کے برقرار رہنے کے باعث زراعت کے علاوہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے شعبے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جس کے باعث ملک گوناگوں مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ کچھ اسی طرح دریائوں کے بہائو میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ دریں اثنا، زیرِزمین پانی کی سطح کا ہر برس ایک میٹر کم ہونا صورتِ حال کی سنگینی ظاہر کرتا ہے جب کہ زیرِزمین پانی کا معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ جیسا کہ کہ تقریباً 92 فی صد سیوریج کا پانی براہِ راست نہروں اور دریائوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ عالمی ادارے’’واٹر ایڈ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کا زیرِزمین پانی استعمال کرنے والے ملکوں کی فہرست میں تیسرا نمبر ہے ۔ یہ پانی صنعتی، زرعی اور گھریلو مقاصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ حکومت نے اگرچہ زیرِزمین پانی کے استعمال کے حوالے سے مختلف قوانین تو تشکیل دے رکھے ہیں جن پر عملدرآمد کے علاوہ ڈیموں کی تعمیر پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ازحد ضروری ہے اور خدشہ ہے کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ہم پانی کی بدترین قلت کا سامنا کر سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اگر بلین ٹری کی طرز کے منصوبوں کے ذریعے ماحولیات پر توجہ دی ہے تو پانی کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنا بھی کچھ کم اہم نہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں پانی کی بوند بوندکو نہ ترسیں۔

تازہ ترین