• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ گزشتہ اِس اعتبار سے ایک اَلم ناک سال رہا کہ متعدّد اہلِ قلم اور دانش وَر داغِ مفارقت دے گئے، لیکن سالِ رواں کا آغاز بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا۔پروفیسر احمد سعید( 13؍ جنوری) اور ڈاکٹر گوہر نوشاہی (17؍ جنوری) جیسے معروف اہلِ قلم دنیا سے رخصت ہوئے، تو ایک بڑا سانحہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی رحلت کی صُورت بھی علمی وادبی دنیا کا مقدر بنا، جو 2؍ فروری کو اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے۔

ابو سلمان شاہ جہاں پوری 30؍ جنوری1940ء کو شاہ جہاں پور میں پیدا ہوئے، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآنِ پاک حفظ کیا اور پھر1950 ء میں پاکستان آگئے۔ ابتدا میں نواب شاہ اور دیگر شہروں میں قیام کیا، تاہم 1957ء میں مستقلاً کراچی میں آباد ہوگئے۔ 1970ء میں ایم اے اور 1980ء میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔پی ایچ ڈی میں مطالعے کا موضوع’’ شاہ ولی اللہ کے خانوادے کی علمی خدمات‘‘ رہا، جو اُن کی اسلامی، دینی تحریکات اور رجال سے فطری دِل چسپی کے تسلسل میں تھا۔ 

اکابرِ دین، بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد اور 20 ویں صدی کے دیگر ممتاز علمائے دیوبند کی علمی و قومی خدمات کا مختلف جہات سے مطالعہ اُن کی دل چسپی کا مرکز رہا۔اس موضوع پر انھوں نے چھوٹی بڑی کم و بیش ایک سو تصانیف و تالیفات دیں۔تدریس کو وسیلۂ روزگار بنایا اور بحیثیت لیکچرار پہلے’’نیشنل کالج‘‘ اور پھر’’ عبدالحامد بدایونی کالج‘‘ میں تدریسی ذمّے داریاں ادا کیں۔

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری سے میرے روابط نصف صدی پر محیط رہے۔ ان روابط کا آغاز اُس وقت ہوا، جب مَیں یونی ورسٹی کا طالب علم تھا اور کراچی کے مرکزی علاقے، صدر ( ریگل) میں فُٹ پاتھ پر لگی پرانی کتابوں کی دُکانوں میں اپنی دل چسپی کی کتب کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا۔ یہیں پہلی بار ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اپنے ایک ہم مکتب محمّد سلیم فاروقی( مرحوم)کے توسّط سے ہوئی تھی۔البتہ ڈاکٹر صاحب سے مستقل تعلقات اُس وقت قائم ہوئے، جب ڈاکٹر محمد ایوب قادری کے ساتھ اُن سے ملاقاتیں شروع ہوئیں۔میرے اور مشفق خواجہ کے درمیان باقاعدہ روابط کا وسیلہ بھی ابو سلمان ہی بنے تھے۔ 

مجھے مشفق خواجہ سے ایک بار اُن کے دفتر جاکر ملنے کا موقع ملا تھا اور اس ملاقات کا محرّک حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خانؒ کا ایک خط تھا، جو مجھے اُن تک بالمشافہ پہنچانا تھا۔ ایک دن مشفق خواجہ شہر کے کسی ریستوران میں ڈاکٹر ابو سلمان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو اُنھوں نے میرا ذکر ڈاکٹر صاحب سے کیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے اپنی واقفیت کا ذکر کیا، تو خواجہ صاحب نے اصرار کیا کہ اِسی وقت وہ مجھے خط لکھ کر اُن کے گھر مدعو کریں۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحب نے وہیں ریستوران میں بیٹھے بیٹھے مجھے خط لکھا اور باہر نکل کر ڈاک کے سپرد کردیا۔ اُن دنوں میں کراچی کے ایک نواحی علاقے ،کورنگی میں رہائش پذیر تھا۔ گھر میں ٹیلی فون بھی نہیں تھا، اِس لیے روابط کے لیے مراسلت ہی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ 

ڈاکٹر صاحب کے اس خط ہی نے میرے اور مشفق خواجہ کے درمیان رسمی تعارف سے بڑھ کر بے تکلفّانہ اور نہایت قریبی دوستانہ مراسم پیدا کیے۔ مشفق خواجہ، ڈاکٹر ابو سلمان سے ایک ہم عُمر، بے تکّلف دوست کی طرح چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کا رشتہ رکھتے تھے۔ وہ مذاق کرنے اور جملے بازی میں، چاہے محفل اور صحبت کیسی ہی کیوں نہ ہو، کبھی نہ چوکتے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے بلکہ چھیڑ چھاڑ اور فقرے چست کرنے کے مواقع نکالتے رہتے اور اس عمل میں بعض اوقات تو حد سے بھی گزر جاتے۔ اس کے ساتھ گاہے اعتراف بھی کرتے جاتے کہ’’ مَیں تو مولانا کا بڑا احترام اور لحاظ کرتا ہوں کہ یہ دوست تو دراصل میرے والد کے رہے ہیں، مجھ پر تو ان کا ادب اور احترام لازم ہے‘‘ ۔ مشفق خواجہ سے بار ہا ملاقاتوں میں، جو کبھی اُن کے گھر پر ہوتیں اور بالعموم شاموں میں کبھی کہیں ریستورانوں میں، کبھی کُھلے پُر فضا مقامات پر بالخصوص ساحل سمندر پر، ہم تینوں وقت گزارتے۔

ان ملاقاتوں اور صحبتوں میں دنیا بھر کے علمی و تحقیقی موضوعات، شخصیات، واقعات، ہنسی مذاق، سیر و تفریح، کھانا پیناسب ہی کچھ شامل رہتا۔ یہ معمولات تقریبا ًدس برس تک یوں ہی رہے۔ تاآں کہ 1986ء کے آخر میں کراچی کے حالات نے دگرگوں صُورت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر ابوسلمان کا گھر اور کتب خانہ ہنگاموں کی نذر ہوا، تو وہ بُجھ کر رہ گئے اور خود کو گھر تک محصور کرلیا۔مجھے یاد ہے، دو ایک بار ڈاکٹر ایّوب قادری نے، جو اہلِ علم و دانش اور بزرگوں سے روابط میں رہتے، ڈاکٹر صاحب کو بہت مخصوص محفلوں میں شرکت اور خطاب پر آمادہ کیا۔

اُس زمانے میں ڈاکٹر قادری، ڈاکٹر ابو سلمان اور میرے درمیان ایک مستقل قرب و شراکت قائم تھی اور مجھے ان دونوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ڈاکٹر قادری کی سربراہی میں’’ مقتدرہ قومی زبان‘‘ کی ایک ذیلی کمیٹی’’ مجلسِ طباعت و اشاعت ‘‘ قائم ہوئی، تو اُنھوں نے ڈاکٹر ابو سلمان اور مجھے اس میں شامل کیا، یوں ہم تینوں نے مقتدرہ کے تصنیفی و طباعتی منصوبوں کی تیاری اور تعمیل میں سرگرمی سے حصّہ لیا۔افسوس کہ ڈاکٹر قادری کی ناگہانی رحلت اور پھر مقتدرہ کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے باعث یہ مثلث باقی نہ رہی۔ یورپ اور جاپان میں میرے طویل قیام کے سبب ڈاکٹر ابو سلمان سے بھی صحبتوں کا تسلسل باقی نہ رہا۔

تاہم، اس دَوران مراسلت کے ذریعے تعلقات ضرور قائم رہے۔ ڈاکٹر ابوسلمان اپنی حد درجہ وضع داری کے باعث میرے خطوط کی رسید دینے میں تساہل سے کام نہ لیتے۔ بڑے اہتمام اور پابندی سے خطوط لکھتے رہے ۔ وضع داری تو ان کا ایسا وصف ہے، جو اب خال ہی کہیں کسی میں نظر آتا ہے۔ روایتی ملاقات کے مواقع تو بوجوہ کم ہوتے چلے گئے، مگر حال احوال کی پرسش سے لے کر عیادت تک اور پھر یوں ہی ہر کچھ دن بعد فون پر خیریت طلبی اور علیک سلیک اُن کا معمول رہا اور یہ تکّلف و اہتمام ہر ایک کے ساتھ تھا۔ کسی سے ملنے جاتے تو خالی ہاتھ نہ جاتے، پھل وغیر ضرور لے جاتے ۔

میرے ہاں آتے تو یہ اہتمام لازم ہوتا۔ سارے گھر کی خیریت ، خاص طور پر میری رفقیۂ حیات، جنھیں’’ دلہن‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور میری بیٹی کو ضرور دعاؤں میں شامل رکھتے۔ جب مَیں ملک سے باہر رہا اور ڈاکٹر صاحب مجھے خط لکھتے، تو پہلے میرے گھر فون کرکے میری والدہ سے اُن کی خیریت ضرور پوچھتے اور خط میں مجھے اُن سب کی خیریت سے مطلع کرتے۔

مشقّت کی حد تک مسلسل محنت ڈاکٹر صاحب کا ایک بڑا وصف تھا۔ انھیں کبھی بے کار اور خاموش نہیں پایا۔انھوں نے اپنی شخصیت، اپنی حیثیت اور اپنے مقام و مرتبے کو خود تعمیر کیا۔’’ پدرم سلطان بود‘‘ والی کوئی بات کبھی ان سے نہیں سُنی۔اُنھوں نے جس گھر میں زندگی کا بڑا حصّہ گزارا، اُسے خود اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیاتھا۔ اینٹیں خود بنائیں، دیواریں خود چُنیں اور چھت تک ڈالنے میں حصّہ ڈالا اور اسی طرح اپنی شخصیت کی تعمیر بھی خود کی۔ ایک طرف فکرِ معاش رہی، جس نے شاید کبھی بہت فراخ دست نہ رکھا، عیش و عشرت اور آسائشوں سے بے نیاز ایک نہایت سادہ اور کفایت شعارانہ زندگی گزاری ۔ 

ہمہ وقت تصنیفی کاموں میں مصروف رہتے اور یہی نہیں، تحریروں کی طباعت کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ابتداً’’ مکتبۂ شاہد‘‘ جو اُن کے فرزند،شاہد حسین خان کے نام پر اُن کا مکتبہ تھا، اُن کی ذاتی مطبوعات کی اشاعت کا مرکز و محور رہا، جب کہ’’ ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘،’’ آزاد نیشنل کمیٹی پاکستان‘‘،’’ مولانا عبید اللہ سندھی اکیڈمی پاکستان‘‘ کی مطبوعات کے اصل روح رواں بھی ڈاکٹر صاحب ہی رہے۔ اسی پر بس نہیں، اُن کے رفقاء اور دوست احباب اگر اپنی کتابیں خود شائع نہ کرسکتے، تو ڈاکٹر صاحب ہی سے رجوع کرتے۔ 

بس پھر یہ ڈاکٹر صاحب کی ذمّے داری ہوجاتی کہ وہ ایسے کاموں کو بھی اپنا کام سمجھ کر پوری دل جمعی، خلوص اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیں۔ غرض ، ڈاکٹر صاحب اداروں کا سا کام خود تنِ تنہا انجام دیتے رہے ۔ مذکورہ بالا جو ادارے ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے عمل میں آئے ،اُن میں کوئی افسر تھا، نہ کارکن، ملازم، نہ چپراسی ، سارے کام ڈاکٹر صاحب ہی انجام دیتے رہے۔

زندگی کے آخری کئی برس وہ تنہائی کا شکار رہے۔ اُن کی رفیقۂ حیات نے کئی سال پہلے دارِ فانی کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ کئی برس علیل رہیں، یہاں تک کہ اُن کی بینائی ضائع ہوئی اور بستر کی ہوگئیں۔ اِس عرصے میں ڈاکٹر صاحب اُن ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ سارا وقت بیگم کی دیکھ بھال کرتے گزرتا، اگر وقت ملتا، تو اپنے لکھنے پڑھنے کے کام اُسی کمرے میں انجام دیتے، صرف عصر سے مغرب کے درمیان نیچے آ جاتے۔ کتب خانے میں وقت گزارتے اور ملاقاتیوں سے ملتے۔ یہ زمانہ ایسا بھی نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب خود صحت مند رہے ہوں۔ کئی سال قبل خود عارضۂ قلب سے دو چار ہوئے،جو آخری سانس تک ساتھ رہا۔ 

اس کے علاوہ کئی اور عوارض بھی اُنھیں لاحق تھے۔ متعدّد بار اسپتالوں میں بھی رہنا پڑا، لیکن آخر وقت تک متحرّک رہے۔ اُنھوں نے اپنے کتب خانے کا بڑا حصّہ شہر کے ایک دارالعلوم کو بخش دیا تھا، لیکن لگتا تھا کہ وہ اپنے اِس فیصلے پر بعد میں بہت مطمئن نہ تھے۔مجھے ایک بار اُن کے ساتھ لاہور تک بذریعہ ریل جانے کا موقع ملا۔ مَیں تو کھڑکی کے پاس بیٹھا باہر دیکھتا رہا، لیکن جیسے ہی ریل کراچی اسٹیشن سے روانہ ہوئی، ڈاکٹر صاحب نشست سے اٹھ کر اوپر برتھ پر چلے گئے اور صبح سے شام تک جُھکے کچھ لکھتے رہے۔ صرف کھانے کے وقت نیچے اترتے اور پھر برتھ پر چلے جاتے۔ رات ہونے پر جب روشنی اِتنی نہ رہی کہ کچھ لکھا جاسکتا، تو لکھنا بند کرکے سوگئے۔ صبح بتایا کہ اِس سفر میں اُنھوں نے متعدّد احباب کو خطوط لکھے، جوابات دیے اور فلاں فلاں کتب پر تبصرے لکھ ڈالے۔

ڈاکٹر ابو سلمان نے اپنے تمام تر معمولاتِ زندگی، اخلاقی ، معاشرتی اور خاندانی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ، اِتنے علمی کارنامے انجام دیے کہ مشکل ہی سے اُن کا تذکرہ کیا جاسکے گا۔ علم سے نسبت اور دل چسپی و شوق کا یہ عالم کہ ساری زندگی لکھنے پڑھنے میں گزاردی اور نہ صرف خود اِس کام میں لگے رہے، بلکہ اپنے احباب کو بھی اِس راہ پر لگادیا۔ ایک زمانے میں جب وہ نیشنل کالج سے منسلک تھے تو وہاں کے تعلیمی اور علمی جریدوں کی ادارت اُن کے سُپرد ہوئی۔ 

اُنھوں نے اِس جریدے’’ علم وآگہی‘‘ کو موضوعاتی اشاعتوں کے لیے مخصوص کردینے کے لیے پرنسپل کو راضی کرلیا اور پھر ایسی خصوصی اشاعتیں منظرِ عام پر لائے کہ جن کی نظیر تعلیمی اداروں کے مجلّوں میں عام نہیں۔’’ تحریکاتِ ملّی‘‘،’’ قائدِ اعظم محمّد علی جناح ‘‘،’’ مولانا محمّد علی جوہر‘‘،’’ تحریکِ پاکستان ‘‘ اور ’’ تاریخ وتحریکِ پاکستان‘‘ کے عنوانات پر خاص اشاعتوں نے اہلِ ذوق کو اپنی طرف متوجّہ کیا۔ڈاکٹر صاحب معاشرتی روابط اور علمی کاموں میں کسی نظریے، عقیدے یا مسلک کو خاطر میں نہ لاتے۔

مجھے ان میں کبھی کوئی عصبیت یا جانب داری نظر نہ آئی۔ اگر وہ کسی مخصوص میلان یا رجحان پر مُصر نظر آتے ہوں، تو یہ اُن کا حق تھا، لیکن اُنھوں نے اپنے رفقاء سے اپنے ایسے کسی رویّے یا عمل پر کبھی کوئی اصرار نہ کیا۔میرے، ڈاکٹر ایوب قادری اور مشفق خواجہ کے خیالات و نظریات سیاسی اور قومی معاملات میں ڈاکٹر صاحب سے مختلف رہے اور یہی صورت پروفیسر شفقت رضوی اور اُن کے درمیان رہی، لیکن اُن کے سب کے ساتھ روابط سراسر علمی نوعیت کے رہے، جو رفتہ رفتہ دوستانہ بلکہ برادرانہ نوعیت میں تبدیل ہوگئے۔ پروفیسر شفقت رضوی برملا فرماتے تھے کہ اُن کے اپنے بیش تر کام ڈاکٹر صاحب کی ترغیب اور تحریک پر ان کا موضوع بنے اور منظرِ عام پر آئے۔ 

ڈاکٹر صاحب کے تصنیفی موضوعات میں سب سے مقبول اور حاوی موضوع ’’ مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ اُن کا بیش تر کام مولانا آزاد کی حیات وخدمات کے مختلف عنوانات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان موضوعات پر جس جس پہلو سے ممکن تھا،بے حد جستجو، خلوص، مستعدی اور دل جمعی کے ساتھ کام کیا۔ جس نظریے، نقطۂ نظر اور مسلک کو مناسب سمجھا، اُس پر مستقل مزاجی سے قائم رہے اور کسی مصلحت، دباؤ یا تنقید کا کوئی اثر قبول نہ کیا۔

ابتدا میں خود کو ’’ الہندی‘‘ لکھتے رہے اور قوم پرستانہ خیالات پر قائم رہے،جس کے سبب اُن پر الزامات عاید ہوتے رہے، لیکن اُن کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہ آئی۔مولانا آزاد کے علاوہ اُن کی محبوب شخصیات میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود حسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی شامل ہیں۔ 

خود بھارت میں اِن بزرگوں پر اس اہتمام، تواتر اور خلوص واستقلال کے ساتھ علمی و تصنیفی کام نہیں ہوا، جو ڈاکٹر صاحب نے یہاں تنہا انجام دیا۔پھر ایسا بھی نہیں کہ اس قدر متنوّع موضوعات پر اِتنی ساری تصنیفات و تالیفات کا اہتمام محض سرسری یا غیر معیاری ہو۔اُنھوں نے تمام موضوعات پر نہایت جستجو، دیانت داری، خلوص اور تن دہی سے تمام ضروری مآخذ اور مواد یک جا کیا۔ 

اگر کسی مقام پر کوئی کمی یا خلا محسوس ہوا، کوئی مصدر یا مآخذ دست یاب نہ ہوتا، تو اُس کے لیے اپنے احباب سے کسی جھجک کے بغیر مدد طلب کرتے۔ معلومات کی فراہمی ، مآخذ کی جستجو، کسی بات کی تصدیق کے لیے بصد شوق و اضطراب مجھ سے بھی رجوع کرتے رہے، یہاں تک کہ میرے ذاتی ذخیرۂ کتب سے استفادے کے لیے غریب خانے کو رونق بھی بخشتے رہے۔

تازہ ترین