• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداس شام کے بوجھل سائے ڈھلنے کو تھے۔ مدینہ منوّرہ کی پاکیزہ فضائوں میں ایک پُراسرار سی خاموشی تھی۔ مسجدِ نبویؐ سے متصل ایک گھر میں موجود حضرت اسماء بنتِ عمیسؓ حسبِ معمول پانچوں بچّوں کو نہلا دُھلا کر تیار کرنے کے بعد آٹا گوندھنے میں مصروف ہیں۔ ہر شام کے کھانے کی تیاری کے بعد رات گئے تک شوہر کا انتظار اُن کا معمول ہے، جو مدینہ منوّرہ سے سیکڑوں میل دُور، دشمنوں کی اجنبی سرزمین، شام کی سرحد پر واقع، وادیٔ موتہ میں قیصرِ روم کے غرور وتکبّر کو زمیں بوس کرنے کے لیے مصروفِ جہاد تھے۔ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلی بڑی جنگ تھی، جس میں رومیوں کے دو لاکھ ٹڈی دَل کا مقابلہ تین ہزار غازیانِ اسلام کررہے تھے۔

یادوں کے جھروکوں سے…

حضرت اسماءؓ بظاہر آٹا گوندھنے میں مصروف ہیں، لیکن آج اُن کی سوچوں کا محور گزرے دنوں کی وہ خُوب صُورت یادیں ہیں، جو لاشعور کے کسی گوشے سے اُمڈ اُمڈ کر ذہن کی تختی پر نقش ہو رہی ہیں۔ ابھی بلوغت ہی کو پہنچی تھیں کہ بنو ہاشم کے سردار، ابو طالب نے اپنے سعادت مند صاحب زادے، حضرت جعفرؓ کے لیے منتخب کرلیا، جو علم و فضل، محبّت و شفقت، جرأت و استقامت، شجاعت و بہادری اور حق گوئی و بے باکی کا بے مثال پیکر تھے۔ ایک تو زندگی ویسے ہی خُوب صُورت تھی، پھر ہم مزاج شریکِ سفر نے مزید حَسین بنادی۔ 

بے فکری، شوخی و مسرّت کے اِن پُر لطف لمحات کے دَوران ایک دن کانوں میں پڑنے والی’’اللہ واحد و لاشریک‘‘ کی سرگوشی نے دِل کی دنیا میں ہل چل مچادی اور پھر دلِ بے قرار کو قرار اُس وقت آیا کہ جب یہ نو عُمر حَسین جوڑا، حضرت صدّیقِ اکبرؓ کی رہ نُمائی میں ہادیٔ برحق، رحمتِ دو جہاں،حضرت محمّدﷺ کی غلامی کے رشتۂ افتخار سے وابستہ ہو کر ’’سابقون الاوّلون‘‘ کے اعزازِ عظیم سے بہرہ وَر ہوا۔ یوں دنیا اور آخرت تو سُدھر گئی، لیکن اپنوں کی محبّتیں، نفرتوں میں بدل گئیں۔

دوست ،دشمن بن گئے اور اب جور وظلم، لعن طعن، طنز و تضحیک، استہزا و تحقیر، جبر و استبداد روز کا معمول تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے اور قریش کے غضب کی تمازت روز بروز بڑھتی رہی۔ اِس سے پہلے کہ صبر و رضا کا لب ریز جام چَھلک پڑتا، ہجرتِ حبشہ کا حکم ہوا اور یوں گلستانِ نبیؐ کے دو نوبہار پھول قافلۂ سرفروشاں کے ساتھ دیارِ غیر کو سدھارے۔ حبشہ پہنچے، تو حضرت جعفرؓ نے دانش مندی، علمیت اور مسلمانوں کی رہ نُمائی کے وہ جوہر دِکھائے کہ نجاشی کے دربار کے درو دیوار لرز اُٹھے اور یہی ایمان افروز نمایندگی نجاشی کے مشرف بہ اسلام ہونے کا باعث بنی۔ 14سال کا طویل اور صبر آزما عرصہ اپنوں سے دُور اجنبی سرزمین پر گزار کر 7؍ہجری کو نبی کریمﷺ کے حکم پر ساتھیوں سمیت مدینہ منوّرہ پہنچے۔ ابھی مدینۃ الرسولؐ میں ایک ہی سال گزرا تھا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

حضورﷺ، حضرت اسماءؓ کے گھر پر

اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دل کے کسی گوشے سے مسرّت کی ایک کرن پھوٹی کہ شاید جعفرؓ آگئے۔ دھڑکتے دِل کے ساتھ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھیں،تو دیکھا کہ سرکارِ دو عالمﷺ جلوہ افروز ہیں۔ رُخِ انور پر دل آویز تبسّم کی بجائے حُزن و ملال کے سائے اندرونی کرب کی غمّازی کر رہے ہیں۔ اندر تشریف لاتے ہی فرمایا’’ بچّے کہاں ہیں؟‘‘ بچّوں نے حضورﷺ کی آواز سُنی، تو بھاگ کر قریب آگئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے بچّوں کو بانہوں میں لیا ہی تھا کہ چشمِ مبارک میں تیرتے آنسوئوں کے سیلاب نے ریش مبارک تر کرنا شروع کردی۔ حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ’’ وہ لمحات میرے لیے بہت صبر آزما تھے۔ دل کی دنیا میں ایک طوفان بپا تھا، مَیں نے لاتعداد اندیشوں اور وسوسوں کے درمیان عرض کیا’’اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اِس قدر غم گین ہونے کی کیا وجہ ہے؟ 

کیا میدانِ جنگ سے کوئی خبر آئی ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ ہاں! جعفرؓ شہید ہوگئے ہیں۔‘‘ اِس اندوہ ناک خبر نے مجھے حواس باختہ کردیا، میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی، جسے سُن کر محلّے کی خواتین میرے گھر آگئیں۔ نبی کریمﷺ، حضرت اسماءؓ کے گھر سے ازواجِ مطہرات ؓکے پاس تشریف لائے اور فرمایا’’ جعفرؓ شہید ہوگئے ہیں اور اِس خبر نے جعفرؓ کے گھر والوں کو بہت غم زدہ کردیا ہے، تم جا کر اُنہیں تسلّی دو۔‘‘ حضرت فاطمہؓ کو چچا، حضرت جعفرؓ اور چچی، حضرت اسماءؓ سے بے حد انسیت تھی۔ اس خبر نے اُنہیں بھی نڈھال کردیا۔ آپؐ نے صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا’’ بیٹی فاطمہؓ ! آلِ جعفرؓ کے لیے کھانا تیار کرو، کیوں کہ وہ شدّتِ غم کے سبب اپنے حواس میں نہیں ہیں۔‘‘

نام و نسب

حضرت اسماءؓ قبیلہ خشعم سے تعلق رکھتی تھیں۔ سلسلہ نسب یوں ہے: اسماء بنتِ عمیس بن معد بن حارث بن تیم بن کعب بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن معاویہ بن مالک بن بشر بن وہب بن شہران بن عفرس بن خلف بن اقبل ہے۔ والدہ کا نام ہند (خولہ) بنتِ عوف تھا، جو قبیلہ کنانہ سے تعلق رکھتی تھیں۔

ہجرتوں کی فضیلت

حضرت اسماءؓ 7ہجری میں فتحِ خیبر کے وقت حبشہ سے مدینہ آئیں، تو ایک دن اُمّ المومنین، حضرت حفصہؓ سے ملنے اُن کے گھر تشریف لے گئیں۔ اتفاق سے سیّدنا عُمر فاروقؓ تشریف لے آئے اور صاحب زادی سے دریافت کیا کہ ’’یہ خاتون کون ہیں؟‘‘ جواب دیا کہ’’ یہ اسماءؓ بنتِ عمیس ہیں۔‘‘ حضرت عُمرؓ بولے’’ اچھا وہی، جو حبشہ سے بحری سفر کرکے آئی ہیں۔‘‘ اُمّ المومنینؓ نے فرمایا’’ جی ہاں، وہی ہیں۔‘‘ سیّدنا عُمر فاروقؓ نے فرمایا ’’ہم، تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں، اِس لیے ہمیں تم پر فضیلت ہے۔‘‘ حضرت عُمرؓ کے ذہن میں مدینہ ہجرت کا خیال تھا، کیوں کہ حضرت اسماءؓ نے اُن کے سات سال بعد مدینہ ہجرت کی تھی۔ 

حضرت اسماءؓ نے کہا’’ ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! تم لوگ رسول اللہ ؐ کے ساتھ رہے ہو۔ تم مَیں سے جو بھوکے ہوتے، آپؐ اُنہیں کِھلاتے، جو جاہل تھے، اُنہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور ہر طرح سے تم لوگوں کا خیال رکھتے، لیکن ہم حبشہ جیسی دُور دراز اجنبی سرزمین پر کافروں کے درمیان بڑی بڑی تکالیف و مشکلات برداشت کرتے رہے اور یہ سب اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی خوش نُودی کی خاطر ہی کیا تھا۔‘‘ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ نبی کریمﷺ تشریف لے آئے۔ 

حضرت اسماءؓ نے سارا واقعہ حضورﷺ کے گوش گزار کیا، تو آپؐ نے فرمایا’’ اسماءؓ! اُنہوں نے ایک ہجرت کی ہے، جب کہ کشتی والوں نے دو ہجرتوں کا شرف حاصل کیا ہے، لہٰذا تم کو زیادہ فضیلت حاصل ہے۔‘‘ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ’’ ہم لوگوں کے لیے حضورﷺ کے اِس ارشاد سے زیادہ خوش کُن اور باعثِ فخر کوئی اور بات نہیں تھی۔ تمام کشتی والے جُوق در جُوق میرے پاس آتے اور یہ واقعہ سُنتے۔ وہ اِس قدر خوش تھے کہ اب اُنہیں دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں‘‘(صحیح بخاری 4230,4231)۔

سیّدنا ابوبکر صدّیقؓ سے نکاح

حضرت ابنِ عُمرؓ کہتے ہیں کہ’’ مَیں بھی جنگِ موتہ میں شامل تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت جعفرؓ کے جسم پر تلوار اور نیزے کے 90؍ سے زیادہ زخم تھے‘‘ (صحیح بخاری حدیث 4261)۔ حضرت جعفرؓ کے کٹے ہوئے بازئووں کے عوض اللہ تعالی نے اُنہیں جنّت میں دو بازو عطا فرمائے، جس کے ذریعے وہ جہاں چاہتے ہیں، اُڑتے ہیں۔ اسی لیے اُن کا لقب،’’ جعفر طیّار‘‘ اور ’’جعفر ذوالجناحین‘‘ پڑ گیا۔ طیّار اُڑنے والے اور’’ ذوالجناحین‘‘ دو بازو والے کو کہتے ہیں(الرحیق المختوم، ص 529)۔ 

حضرت جعفرؓ کی شہادت کو 5 ماہ گزر چُکے تھے۔ آنحضرتﷺ کو اُن کے بچّوں کی پرورش کی بے حد فکر تھی، چناں چہ آپؐ نے حضرت اسماءؓ کا نکاح حضرت صدّیقِ اکبرؓ کے ساتھ کردیا، جس کے دو سال بعد ذیقعدہ 10؍ ہجری میں حضرت اسماءؓ حج کے سفر پر تھیں کہ زوالحلیفہ میں محمّد بن ابی بکرؓ پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے حضورﷺ سے معلوم کروایا کہ’’ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’غسل کرکے احرام باندھ لیں۔‘‘

حضرت سیّدہ فاطمہؓ کی رفاقت

نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد سے حضرت فاطمہؓ ہر وقت غم گین و دِل گرفتہ رہتیں۔ ایسے میں حضرت اسماءؓ نے اپنا بیش تر وقت اُن کی دِل جوئی میں صَرف کیا۔ ویسے بھی اُن دونوں کی آپس میں محبّت و رفاقت ضرب المثل تھی۔ سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓ شرم و حیا کی پیکر تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت اسماءؓ سے فرمایا کہ’’ کُھلے جنازے میں عورتوں کی بے پردگی ہوتی ہے، جو مجھے پسند نہیں۔‘‘ 

حضرت اسماءؓ نے کہا ’’اے جگر گوشۂ رسولؐ! مَیں جب حبشہ میں تھی، تو وہاں جنازے کو ڈھانپنے کا ایک طریقہ دیکھا تھا۔ تم کہو، تو بتائوں۔‘‘ پھر سیّدہ فاطمہؓ کی رضامندی سے اُنہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں، اُنہیں چارپائی پر باندھ کر اُس کے چاروں جانب کپڑا تان دیا۔ حضرت فاطمہؓ کو یہ طریقہ بہت پسند آیا۔ انتقال کے بعد اُن کے جنازے کو اسی طرح اُٹھایا گیا۔

حضرت علیؓ سے نکاح

حضرت صدّیقِ اکبرؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ اُس وقت محمّد بن ابو بکر کی عُمر تین سال تھی۔یوں اُنہوں نے حضرت علیؓ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پائی۔ ایک دن حضرت اسماءؓ کے دو صاحب زادے، محمّد بن جعفرؓ اور محمّد بن ابوبکرؓ گھر میں کھیل رہے تھے کہ دونوں میں اِس بات پر تکرار ہوگئی کہ کس کے والد صحابہؓ میں افضل ہیں۔ 

دونوں کے بھرپور دلائل اور دل چسپ گفتگو سے سیّدنا علی المرتضیٰؓ بھی محظوظ ہو رہے تھے، لیکن جب بات نے طول پکڑا تو، حضرت علیؓ نے دونوں سے فرمایا کہ’’ اِس بات کا فیصلہ تمہاری ماں سے کرواتے ہیں۔‘‘ حضرت اسماءؓ نے دونوں کی بات سُنی اور فرمایا کہ’’ نوجوانوں میں حضرت جعفرؓ کو اور عُمر رسیدہ لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ کو فضیلت حاصل ہے۔‘‘ حضرت اسماءؓ کی ذہانت بَھرے فیصلے نے دونوں بچّوں کو مطمئن کردیا۔

نکاح اور اولاد

حضرت اسماءؓ جلیل القدر صحابیہ ؓتھیں۔ اُنہوں نے تین نکاح کیے۔ حضرت جعفرؓ سے دو صاحب زادیوں کے علاوہ، تین صاحب زادے محمّد، عبداللہ اور عون پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ سے محمّد اور حضرت علیؓ سے یحییٰ پیدا ہوئے۔ویسے تو حضرت اسماءؓ کے سب بچّے ہی نام وَر تھے، لیکن عبداللہ بن جعفرؓ زیادہ معروف ہیں۔ یہ حضرت علیؓ اور سیّدہ فاطمہؓ کی صاحب زادی، حضرت زینب بنتِ علیؓ (خاتونِ کربلا) کے شوہر تھے۔ 

اُن کے دو بیٹے عونؓ اور محمّدؓ کربلا میں شہید ہوئے۔ حضرت اسماءؓ نے حکمت حبشہ میں سیکھی تھی، جب کہ خوابوں کی تعبیر کے علم پر بھی دسترس تھی۔ حضرت عُمر فاروقؓ اُن سے اکثر خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے۔ (الاصابہ 9/8)

وفات

40 ہجری میں سیّدنا علی المرتضیٰؓ کی شہادت ہوئی، اُن کے بعد حضرت اسماءؓ کا بھی انتقال ہوگیا۔ دمشق میں تدفین ہوئی۔ حضرت اسماءؓ سے 60 احادیثِ مبارکہ مروی ہیں۔

تازہ ترین