• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت جدید فلسفے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جدید فلسفے کا ایک بڑا مقصد اقتصادی، ثقافتی، معاشرتی، دینی، قومی اور وطنی امتیازات کو ختم کرکے پوری دنیا کو سامراجی اہداف اور امریکی نظریے کے مطابق جدید نظام کے دائرے میں لانا ہے۔ اس وقت سیاسی، اقتصادی، تہذیبی اور تعلیمی چار میدانوں میں اس کے فروغ کی کوششیں عروج پر ہیں۔ویسے تو یہ سوچ پوری دنیا پر مسلط کی جارہی ہے، مگر اس کا اصل ہدف عالم اسلام اور مسلمانوں کو قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جانب امت کی راہنمائی کرنے والے علماء جدید فلسفے سے ناواقف ہیں، حالانکہ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے’’وہ شخص دین کی کڑیاں بکھیر دے گا جو اپنے زمانے سے واقف نہ ہو۔‘‘ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، یہ عہد 1924ء میں خلافت اسلامیہ کے ملبے پر تعمیر ہوا ہے۔ مغرب کے عسکری استعماری غلبے کے ساتھ ساتھ دنیا پر مغرب کا فکری غلبہ بھی ہوتا گیا۔ اس غلبے کا تعلق مغرب کے جدید فلسفے سے ہے مسلمانوں نے ماضی میں یونانی فلسفے کا ناقدانہ جائزہ لیا تھا۔ بالکل اسی طرح ہمیں بھی جدید فلسفے کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ اقبالؒ اور مولانا یوسف بنوریؒ جدید فلسفے کی تباہ کاریوں سے بخوبی واقف تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی اور اس میں مسلمانوں کی عارضی شکست ان کے سامنے تھی۔ فرنگی استعمار اور ہندو ثقافت کے یکے بعد دیگرے ہندوستان پر پنجے گاڑنے کی کوششوں سے وہ باخبر تھے۔ یہی حال اقبالؒ کی شاعری کا ہے۔قاسم نانوتویؒ کی کتابوں اور تحریروں میں جدید فلسفہ کے پیدا کردہ سوالات، شبہات اور اشکالات کا زبردست ردّ موجود ہے۔ اس میں علم کلام کے تمام خدو خال موجود ہیں۔ مولانا تھانوی ؒکی کتاب ’’الانتباہات المفیدہ‘‘ جدیدیت، جدید فلسفے کا نہایت عالمانہ وفاضلانہ ردّ ہے۔ محمد حسن عسکری اور پروفیسر کرار حسن نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ’’An Answer to Modrenism ‘‘ کے نام سے کیاہے۔ مذکوہ بالا حضرات اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان خصوصاً دین دار طبقہ اور علماء جدید فلسفے سے واقف ہوں۔ پہلے جدید فلسفے کو خود سمجھیں۔ پھر عوام کو سمجھائیں اور پھر اس کے سامنے سد اسکندری بن جائیں۔ یہ کام ہماری تاریخ کے آغاز میں امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہ ؒکے ہاتھوں نہایت احسن طریقے سے مکمل ہو چکا ہے۔ امام غزالیؒ یونانی زبان نہیں جانتے تھے، لیکن انہوں نے اس زبان کے بغیر ہی یونان کے فلسفے کو علمی شکست دی۔ ابن تیمیہ ؒیونانی زبان جانتے تھے ، انہوں نے یونانی منطق و فلسفے کو دوسرے طریقے سے شکست دی۔ وہ علماء جو انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبان نہیں جانتے وہ امام غزالیؒ کے طریقے کی پیروی کریں۔ جو علماء ان زبانوں سے واقف ہیں، وہ ابن تیمیہؒ کے طریقے کی پیروی کریں۔ زبان سے عدم واقفیت جدید مغربی فلسفے کے فہم میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ جدید فلسفے کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے:اس کے مطابق ہر انسان کو مذہب سے مکمل آزادی ہے۔ گویا جدید فلسفے میں مادیت ہی مادیت اور مادر پدر آزادیاں ہی آزادیاں ہیں۔ لبرل ازم، سیکولر ازم، سوشلزم اور دیگر بیسیوں قسم کے ازم مادہ پرستی، خواہش پرستی، ہم جنس پرستی، نفس پرستی اور انسان پرستی کی پیداوار ہیں۔ پوری دنیا اور انسانیت کی نجات اسی میں ہے کہ اس فلسفے کو مکمل سمجھا جائے۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور دھیرے دھیرے اس سے جان چھڑائی جائے۔

تازہ ترین