• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ … مریم فیصل
عورت اور تقدیر حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والے تو ہر سال آٹھ مارچ کو اپنا کام کر کے چلے جاتے ہیں لیکن عورتوں کی زندگیاں وہیں کی وہیں ہی رہ جاتیں ہیں ۔ جو خوش ہیں وہ اس دن کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں لیکن جو سہے رہی ہیں ان کے لئے بھی اس دن کی کوئی خاص اہمیت نہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کی زندگیاں نعروں یا مارچوں سے بدلنے والی نہیں ۔ عورت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ زبان نہیں کھولے تب اسے ڈر پوک کہا جاتا ہے اور اگر وہ زبان کھولے تب اسے بے باک بد کردار کہا جائے گا یعنی دونوں ہی صورتوں میں اسے غلط سمجھا جاتا ہے ۔وہ کچھ کرے تب بھی بری کچھ نہ کرےتب بھی خراب ۔ اپنی مرضی سے جینا چاہیے تو آزاد خیال اور اپنے باپ بھائی میاں کی تابع دار بن کر جئے تو مظلوم ۔ مطلب یہ کہ اس کو ہمیشہ ایسے ہی القابات سے نوازا جاتا ہے جس میں اس کی ذات کی کمزوری ہی جھلکتی ہے ۔ زمانہ کہا ںسے کہاں پہنچ گیا لیکن عورت وہیں کی وہیں ہی رہ گئی جیسی وہ غیر تہذیب یافتہ ادوار میں تھی ۔فرق صرف یہ ہوا ہے کہ اس کی مظلومیت کو مختلف رنگ دے دئیے گئے ہیں جنھیں آزادی مارچ ، موم بتی مافیا حقوق نسواں کے علمبردار اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔جن کا فائدہ کم از کم عورتوں کو تو بالکل بھی نہیں ۔ برطانیہ میں ہی دیکھ لیجیے نئے شائع اعدادو شمار کے مطابق پچھلے ہی سال 207 خواتین کوقتل کیا گیا اور ان کے قاتل یا تو ان کے پارٹنر، شوہر یا سابقہ پارٹنر تھے ۔ مطلب اس ترقی یافتہ معاشرے میں جہاں عورت کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہے یہاں بھی وہ ایسے شخض کے جذبات کا شکار ہو جاتی ہے جو کبھی اس کے ساتھ ایک تعلق میں بندھا ہوا تھا ۔ عورت کے لئے مشکل یہ بھی ہے کہ وہ جب کسی مرد کے ساتھ جذباتی رشتے میں بندھتی ہے تب وہ اسی کے ساتھ مخلص رہنے کی بھرپور کوشیش کرتی ہے اور اس رشتے کو نبھانے کے لئے اپنے انداز کو تبدیل بھی کرتی ہے لیکن جب دوسری طرف سے بدلے میں بجائے محبت کے، بے عزتی اور کم ذات ہونے جیسے جذبات ملتے ہیں تب وہ اس رشتے سے بیزار ہوجاتی ہے ۔لیکن ہر صورت اس بے ذائقہ رشتے کو نبھانے کی کوشیش کرتی ضرور ہے تاکہ اسے اور اس کے گھر والوں کو یہ طعنے نہ سننے پڑے کہ وہکیسی ہے ذرا کچھ کہہ دیا اور گھر توڑنے لگی لڑکیوں کو تو کمپرومائس کرنا ہی ہوتا ہے ۔ ایسی باتیں کرنے والوں کو کون یہ سمجھائے کہ لفظ کمپرومائس صرف عورت کے لئے نہیں بنا یہ مردوں پر بھی پوری طرح سے لاگو ہوتا ہے ۔ یہ کس کتاب میں یا قانون میں تحریر ہے کہ عورت ہی سنے اور سہے ۔مرد کو بھی سہنے کی عادت ڈا لٹاہوگی ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ عورتیں خود بھی سہتی ہیں اور اپنی بیٹیوں، بہنوں کو بھی جھکاتی ہیں کہ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی عورت سر اٹھائے تب یا تو وہ کاری کر دی جاتی ہے یا پھر معاشرے میں اسے بنا کردار کی گندی عورت کا میڈل دے دیا جاتاہے ۔یہ کہانی ترقی پذیر نہیں ترقی یافتہ معاشروں میں بھی سنی جاتی ہے کہ میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں ۔کتنی ہی کہانیاں ہے جو عورت کی ذات سے منسوب ہیں لیکن ہر کہانی میں وہ مضبوظ ہو تب بھی کمزور ہی نظر آتی ہے کیونکہ عورت کی تقدیر بدلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
تازہ ترین