• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ایک شخص نے مجھ سےرابطہ کیاجو کسی کام سے برازیل گیا اور وہاں سے چند روز قبل ہی پاکستان واپس آیا تھا۔ میں نے اُس کے ٹکٹ، ویزا، بورڈنگ پاس اور اُس کی وہاں کی تصاویر سےتصدیق بھی کی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ برازیل میں کورونا وائرس کا ایک ایسا خطرناک ویریئنٹ پھیلا ہوا ہے جو شاید برطانیہ میں پھیلے ہوئے کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، یہ P1ویریئنٹ کہلاتا ہے۔ اِس کے بارے میں ابتدائی ڈیٹا یہ خدشہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ 25سے 61 فیصد اُن لوگوں کو بیمار کرتا ہے جو پہلے سے کوروناکا شکار بن کر صحت یاب ہو چکے ہیں اور اِس ویریئنٹ سے وہ نہ صرف بیمار بلکہ شدید بیمار ہو رہے ہیں۔ اِس لئے برازیل کو پاکستان نے Cکیٹیگری کے ممالک میں رکھا ہوا ہے۔ جب اِن ممالک سے لوگ پاکستان آتے ہیں تو نہ صرف اُن کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے بلکہ اُنہیں قرنطینہ بھی کرنا پڑتا ہے۔

ہماری سنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شخص جب پاکستان آیا اور لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچا تو اُس نے اپنا صحت فارم بھرا جس میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ وہ برازیل سے آیا ہے لیکن متعلقہ حکام میں سے کسی نے وہ فارم پڑھنےتک کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ سب مسافروں سے فارم لے کر اُن کا پلندہ اکھٹا کرتے رہے۔جب اُس نے خود ایئر پورٹ حکام کو کہاکہ میں برازیل سے آ رہا ہوں اور میرا کورونا ٹیسٹ ہونا چاہئے تو بھی کسی نے اُس کی بات سنجیدگی سے نہ سنی اور نہ ہی اُس کا کورونا ٹیسٹ ہوا، اُلٹا اُسے تسلی دی جاتی رہی کہ آپ کیوں فکر مند ہو رہے ہیں، آرام سے گھر جائیں۔

شکر ہے وہ ایک ذمہ دار شہری تھا اِس لئے اُس نے اپنا ٹیسٹ ایک نجی لیبارٹری سے کروا لیا، صد شکر کہ ٹیسٹ کا رزلٹ منفی آیا، وہ بالکل تندرست تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ شخص برازیل سے کورونا وائرس کا شکار ہو کر پاکستان واپس آتا اور یہاں ایئر پورٹ پر اُس کا ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایک خطرناک ویریئنٹ پاکستان داخل ہو جاتاتو کیا ہوتا؟ UKکا جوویریئنٹ اب پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہمارے ہاں تیسری لہر کا سبب بن رہا ہے ، یہ بھی ہماری انہی غلطیوں اور بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان میں آیا ہے۔

کورونا وائرس کی تیسری لہر یقیناً پاکستان میں آ گئی ہے اور آخر کار وہ حکومت جو بڑے پیمانے پر لاک ڈائوں کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی ہے اور دوسری لہر میں بھی لاک ڈائون کرنے سے کترا رہی تھی ،اب کچھ حد تک لاک ڈائون کرنے پر مجبور ہو چکی ہے لیکن ہم آج اِس مقام تک کیسے پہنچے اور یہ کس کی غلطی ہے؟ ہم کیا چیز مختلف کر سکتے تھے؟ یہ وبا جو ہمیں لگ رہا تھا کہ پاکستان سے ختم ہونے جا رہی ہے، اب کب ختم ہوگی؟یہ سب سوالات اِس وقت بہت اہمیت اختیارکرچکے ہیں۔

جب چین میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا اور وہاں لاک ڈائون لگا دیا گیا تھا تو میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ یہ بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے اور خدانخواستہ اگر پاکستان میں یہ وبا پھیل گئی تو ہمارے لئے اِس سے نمٹنا بہت مشکل ہو گا۔کچھ صحافی ساتھی اُس وقت میرا مذاق اُڑاتے تھے کہ میں خواہ مخوا ڈر رہا ہوں لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ اِس وائرس نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

صرف وہ ممالک اِس وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے ابتدا میں ہی اِس حوالے سے ٹھوس اقدامات کر لئے تھے۔ ہمارے لئے یہ سنہری موقع تھا کہ ہم اُسی وقت بین الاقوامی سفر پر پابندی لگا دیتے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے بڑے سخت پیمانے پر یہ پابندیاں لگائیں جن کا وہ آج فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ہم نے ابتدا میں اِس حوالے سے تاخیر سے کام لیا اِسی لئے یہ وائرس پاکستان پہنچ گیا۔

یہ وائرس پاکستان آنے کے بعد بھی عوام نے اِسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ آج بھی بہت کم لوگ ہیں جو باقاعدگی سے ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔ مسئلہ شاید یہ ہے کہ وہ حکومتی مشینری جس نے لوگوں کو سمجھانا بھی ہے اور کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بھی بنانا ہے ، وہ خود اِس حوالے سے سنجیدہ نہیں جیسا کہ لاہور ایئر پورٹ پر برازیل سے واپس آنے والے شخص سے کئے جانے والے سلوک سے واضح ہوا ہے۔

اب صرف وہ ممالک اِس وبا پر قابو پانا شروع ہوئے ہیں جنہوں نے ویکسین کا عمل شروع کر دیا ہے اور اِس پورے معاملے میں ہم نے سب سے بڑی غلطی ہی ویکسین کے حوالے سے کی ہے۔ سارا ملبہ حکومت پر ڈالنا بھی غلط ہو گا۔ ویکسین کا بروقت آرڈر نہ کرنا اور عوام کو اِس بارے میں آگاہ نہ کرنا حکومت کی غلطی ہے لیکن عوام کا ضروری آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین نہ لگوانا بھی ہمیںاِس وبا سے نکلنے سے روک رہا ہے۔

جیسے جیسے کورونا کی نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں، یہ مزید واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ویکسین ہی اِس بیماری سے نکلنے کا واحد حل ہے اور اب تو یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ ہمیں کورونا کی نئی شکلوں کے خلاف ہر کچھ عرصے بعد ویکسین لگوانی پڑے گی۔عوام اور حکومت ابھی تک اِس حوالے سے تیار نظر نہیں آتے۔ جیسا کہ گزشتہ کئی کالموں میں لکھا جا چکا ہے کہ جب تک سب محفوظ نہیں ہوں گے تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں ہو گا۔ہم جو پیسہ ویکسین پر خرچ کریں گے، اُس سے ہم کورونا پھیلنے کی صورت میں کہیں زیادہ بڑے مالی نقصان سے محفوظ رہیں گے اور اِس وبا سے ہماری معیشت اور کاروباربھی تباہ ہونے سے بچے رہیں گے۔ اِسی لئے ویکسین کا انتظام کرنا اور ویکسین لگوانا ملک کا سب سے بڑا مشن ہونا چاہئے۔

تازہ ترین