• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوال یہ ہے کہ میں بطور وزیر برائے بحری امور ایل این جی پر مضمون کیوں لکھ رہا ہوں ؟وضاحت کیے دیتا ہوں۔ میری تحریک ِ انصاف سے وابستگی دو عشروں پر محیط ہے ۔ 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو وزیر اعظم پاکستان نے مجھے بحری امور کی وزارت کی ذمہ داری سونپی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پورٹ قاسم اتھارٹی دو ایل این جی ٹرمینلز کے کیسز میں نیب میں فریق تھی اور ہے ۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کے افسران سے دونوں ٹرمینلز کی تعمیر کی بابت ٹیکنیکل امور پر سوالات پوچھے گئے۔ یہاں میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ یہ کیسز ہم نے شروع نہیں کیے تھے ۔ یہ ہمیں پچھلی حکومت سے ورثے میں ملے تھے۔

کابینہ کی اجتماعی دانش اور پٹرولیم ڈویژن کی حمایت سے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہواکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کو مزید ایل این جی ٹرمینلز قائم کرنے والی خواہش مند پارٹیوں کو جگہ فراہم کرنی چاہئے ۔ اس پر پورٹ قاسم اتھارٹی نے پانچ خواہش مند پارٹیوں کے پیش کردہ انجینئرنگ کے عمل میں ممکنہ خطرات کے جائزے، کیو آر اے (Quantitative Risk Assessments) پر غور کرنا شروع کردیا ۔ ایک بین الاقوامی مشاورتی فرم ، ایچ آر والنگفورڈ (HR Wallingford) ، جس نے پورٹ قاسم اتھارٹی کا ماسٹر پلان بنایا تھا اور جو پہلے ہی اتھارٹی کے43 کلو میٹر سے زیادہ توسیعی چینل کو کھلا اور گہرا کرنے کے کام کا اندازہ لگا رہی تھی ، کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ ایچ آر والنگفورڈ نے جائزہ لیتے ہوئے پانچوں کیو آر اے کو تھوڑے بہت ردوبدل کے بعد منظور کرلیا ۔ اس کے بعد پورٹ قاسم اتھارٹی نے پانچوں درخواست دہندہ پارٹیوں کو نئے قوانین اور پالیسی فریم ورک کے مطابق اپنے ٹرمینل تعمیر کرنے کی دعوت دی۔

اس میں کیا فرق تھا ؟پہلا فرق یہ کہ ا س سے پہلے دونوں ایل این جی ٹرمینل حکومت کی ضمانت پر تعمیر ہوئے تھے ، لیکن اس مرتبہ حکومت کی طرف سے کوئی مالی ضمانت نہیں دی جائےگی ۔ سادہ الفاظ میں اُنہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی ایل این جی لائیں ، اپنے لیے مارکیٹ میں جگہ پیدا کریں اور گیس فروخت کریں ۔ ریکارڈ کے لیے بتاتا چلوں کہ موجودہ ٹرمینلز اپنے پندرہ سالہ معاہدے میں 190 ملین ڈالر سالانہ وصول کریں گے۔ جی ہاں ، 190ملین ڈالر سالانہ کے حساب سے پندرہ سالوں میں کم وبیش 2.85 بلین ڈالر ادا کیے جائیں گے ۔ نیز ، عملی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو دوسرے ایل این جی ٹرمینل کے لیے ’’گیس لویا ادائیگی کرو‘‘ معاہدے کی ضرورت نہیں تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ طویل عرصے کے معاہدے میں ہم دوسرے ٹرمینل کی صرف چالیس فیصد استعداد استعمال کررہے تھے لیکن ادائیگی سو فیصد کررہے تھے ۔ اس کی وجہ دوسرے ٹرمینل کے آپریٹر کے ساتھ کیا گیا بدعنوانی پر مبنی معاہدہ ہے ۔ مالیاتی زبان میں بات کریں تو دوسرے ٹرمینل کے آپریٹر کو ایل این جی کو گیس میں تبدیل کرنے کے لیے یومیہ250,000ڈالرادا کیے جارہے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم یومیہ بلاضرورت150,000ڈالر ضائع کررہے تھے کیوں کہ نہ ہمارے پاس اس کے لیے کارگو تھا اور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت تھی۔

دوسرا یہ کہ پورٹ قاسم اتھارٹی بورڈ نے بہت غور و غوض کے بعد فیصلہ کیا کہ نئے درخواست گزاروں سے دس ملین ڈالر فی ٹرمینل رعایتی فیس وصول کی جائے ۔پورٹ قاسم اتھارٹی پانچ میں سے دو سرمایہ کاروں کو آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ وہ حکومت کی ’’گیس لینے یا ادائیگی کرنے ‘‘ کی ضمانت کے بغیر ایل این جی ٹرمینل تعمیر اور آپریٹ کرنے کے لیے رضا مند ہوگئیں ۔ رعایتی فیس نے پورٹ قاسم اتھارٹی کو حقیقی سرمایہ کاروں کو ممکنہ رکاوٹ پیدا کرنے والوں سے الگ کرنے کے قابل بنا دیا ۔ فیس نے پورٹ قاسم اتھارٹی کو ایل این جی کارگوز کے لیے متبادل چینل کو صاف کرنے کے لیے درکار فنڈز کا بندوبست کردیا۔

بطور قانون ساز ، حکومت کا کام پالیسی فریم ورک مہیا کرنا اور سرمایہ کاروں کو کام کرنے کے قابل بنانا ہوتا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے اس پر اپنی قوم کے مفاد کو مقدم رکھنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔لیکن توانائی کی فراہمی کے سلسلے پر چند ایک کی اجارہ داری ہے ۔اس لیے جب ہم نئے ٹرمینل آپریٹرز کی حوصلہ افزائی کررہے تھے ، ہمارے سامنے بہت سی رکاوٹیں آئیں ۔ یہ چیز قوم کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم نے دوسروں کو اس میدان میں قدم رکھنے اور مسابقت کا ماحول قائم کرنے کی اجازت دی ۔ جو لڑائی ہم نے شروع کی، اس نے ایک مستحکم گروپ کے مفاد پر ضرب لگائی ۔ یہ گروپ کئی برسوں سے ملک کو مسلسل پریشان کررہا ہے۔ ان کے کچھ کارناموں میں بدنام زمانہ 50 میگاواٹ نوڈیرو رینٹل پاور پروجیکٹ ، 38 ار ب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دوعشروں پر پھیلی ہوئی افسوس ناک داستان ہے جس نے قوم کو اربوں روپوں سے محروم کردیا ہے ۔ ناقدین کو یاد دلانا چاہوں گاکہ وزیر اعظم نے ایل این جی کی خریداری پر ایک وعدہ کیا تھاکہ اُن کی قیادت میں پاکستان نے مسلم لیگ ن کے دور میں کی جانے والی ڈیل سے 31 فیصد کم قیمت پر ایل این جی کی ڈیل کی ہے ۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ پہلی ڈیل فروری 2016 میں ہوئی تھی اور ہم نے بھی ڈیل فروری 2021 میں کی ہے۔

میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ہماری حکومت کو اس ڈیل کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے مستقبل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے عام آدمی کے فائدے کے لیے توانائی کی قیمت کم رکھنی چاہئے ۔ کابینہ ، ای سی سی اور کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا ممبر ہوتے ہوئے میں یہ ذمہ داری محسوس کرتا ہوں کہ مجھے ملک و قوم کے مفاد میںسخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے تصورات سے کہیں کٹھن اور اہم کام ہے، لیکن خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم ایک مقصد کو سامنے رکھ کر آئے ہیں کہہم نظام کو بدعنوانی سے پاک کرکے ہی دم لیں گے ۔ ہم اپنی قوم کو اُوپر اٹھانے کے لیے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔

(صاحب تحریر وفاقی وزیر برائے بحری امور ہیں)

تازہ ترین