آج کل سیاست دانوں کے ستاروں، زائچوں اور ان کے ہاتھوں کی لکیروں کا بہت چرچا ہے۔پاکستانی عوام دھڑکتے دل کے ساتھ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی مسیحا اٹھے اور ان کی تقدیر کی خبر ہی نہ دے بلکہ ان کی تقدیر بدل دینے کی بات بھی کرے۔ اہل خبر اور اہل نظر سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ ستاروں کی گزر گاہوں کے بجائے عقل و دانش کی گزر گاہوں سے ہوتے ہوئے خستہ حال عوام اور پژمردہ نوجوانوں کو خوش خبری سنائیں گے کہ ان کے دن پھرنے والے ہیں۔
چند روز پہلے طائف کے معروف و ممتاز طبیب ڈاکٹر طارق شیخ مریضوں کی مسیحائی کرتے کرتے خود دل کے حملے میں اسپتال جا پہنچے۔ ڈاکٹر طارق شیخ سعودی عرب کے پاکستانیوں میں نہایت ہر دلعزیز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو جب آئی سی یو وارڈ میں ہوش آیا تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے صاحب زادے سے پوچھا میرے پیارے پاکستان کی خیر خبر سنائو۔ کم و بیش یہی حال ہر سمندر پار پاکستانی کا ہے وہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ہی ہر سال نہیں بھیجتے بلکہ پاکستان کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک خواہشات کے تحائف بھی بھیجتے ہیں۔ اسپتال سے گھر آنے کے بعد میں نے فون پر ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے الحمد للہ کہنے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ وطن عزیز سے قبائلی و استحصالی کلچر کا کب خاتمہ ہوگا۔
فی الواقع جیسی تیسی جمہوریت تو پاکستان میں ہے مگر ابھی تک ہر جگہ قبائلی کلچر کا راج ہے۔ حکمران اپنے آپ کو قبائلی سردار سمجھتے ہیں اور ان کے پڑھے لکھے حواری بھی ان کے ہر جائز اور ناجائز اقدام کا دفاع کرنا اپنی وفاداری کا ادنیٰ تقاضا شمار کرتے ہیں۔ ہم تو اس کلچر کے دعویدار ہیں کہ جہاں آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں کہ رب کعبہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ ساری دنیا میں پانامالیکس کے حوالے سے ہاہا کار مچی ہے۔ پاکستان میں بھی اپوزیشن چیخ و پکار کررہی ہے مگر مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ایک صدا بھی بلند نہیں ہوئی کہ عدالتی و پارلیمانی احتساب سے پہلے میاں نواز شریف کا جماعتی احتساب ہوگا۔ پہلے ان کی اپنی جماعت کو پوچھنا چاہئے تھا کہ میاں صاحب! یہ جو کچھ دنیا کہہ رہی ہے اس میں حقیقت کتنی ہے اور مبالغہ کتنا ہے۔ مگر ایسے کسی احتساب کا خیال بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں آہی نہیں سکتا۔ حکمرانوں کے فدائین پر ترس آتا ہے کہ؎
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
جناب پرویز رشید کے ترکش میں جتنے بھی تیر ہیں وہ سارے کے سارے جوابی الزامات کے زہر میں بجھے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ایک بھی ایسا تیر نہیں کہ جو دلیل کی قوت سے مالا مال ۔
بیٹیاں نہایت واجب الاحترام ہوتی ہیں۔ ان سے بحث و تکرار کسی طرح بھی روا نہیں تاہم محترمہ مریم نواز چونکہ اب میدان سیاست میں ہیں اور اکثر ان کے ٹوئٹر پیغامات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اس لئے ان پر بات کی جاسکتی ہے۔ اپنے تازہ ترین ٹوئٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا ضمیر مطمئن ہے اس لئے ہم نے خود جاکر سپریم کورٹ کے دروازے کو کھٹکھٹایا ہے۔ اگر جناب میاں نواز شریف صاحب کا ضمیر اتنا ہی مطمئن ہے تو پھر وہ فیئر پلے کے بجائے جس بھی کمیشن کا اعلان کرتے ہیں اس میں اپنے تحفظ کے لئے ہر ممکن حیلے بہانوں کے اوور کوٹوں کا پہلے سے بندوبست کیوںکرلیتے ہیں۔ جناب میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کی سوچ اور اپروچ کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے آئی سی آئی جے کی بین الاقوامی تنظیم کو اپروچ کرلیا اور پاناما لیکس سے میاں نواز شریف کا نام نکلوالیا۔
گزشتہ دنوں جناب وزیر اعظم نے اپنے دوسرے خطاب میں جس جرات رندانہ سے کام لیتے ہوئے دیدہ و نادیدہ قوتوں کو للکارا ہے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ بٹھاتے اور کہتے کہ سب سے پہلے میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہوں کیونکہ میرا دامن بالکل صاف ہے۔ ساتھ ہی وہ شرائط کار المعروف ٹی او آرز بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر طے کرتے تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی۔ لگتا یہ ہے کہ کسی بقراط نے اپنی ذہانت کی دھاک بٹھانے کے لئے میاں صاحب کو قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی کرپشن کا مقدمہ درج کروانے کا مشورہ دیا ہے تاکہ؎
نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی
اس کے برعکس جو کوئی وہ جناب اسحٰق ڈار بھی ہوسکتے ہیں میاں صاحب کو دانشمندی و اخلاص سے اپوزیشن کے ساتھ ٹکرائو سے بچنے کا مشورہ دے رہا ہے وہ بڑا صائب مشورہ دے رہا ہے مگر لگتا یوں ہے کہ یا تو وہ دانشمند شخص یکبارگی میاں صاحب کو حکمت و دانش کی مکمل خوراک نہیں دیتا یا پھر میاں صاحب اس کی دانش کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر بعداز خرابی بسیار تسلیم کرتے ہیں۔
اس دانش مندانہ لابی کے مقابلے میں خوشامد پسندانہ لابی بھی بہت متحرک ہے اور وہ میاں صاحب کو ہر آن ٹکرائو پر اکساتی رہتی ہے اور جلسے جلوسوں کی سیاست پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ جناب وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ جلسے جلوس تو اپوزیشن کی ضرورت ہوتے ہیں۔ حکومت کے لئے تو ہمیشہ ایک پرامن فضا ہی سازگار ہوتی ہے کہ جہاں وہ اطمینان کے ساتھ اگلے انتخابات سے پہلے ان سارے اہداف کو پورا کرسکے جو اس نے اپنے انتخابی منشور میں پیش کئے ہوتے ہیں۔ اپنے انتخابی وعدے پورے کئے بغیر ایک انتخابی دنگل کی سی سیاسی فضا پیدا کرنا کسی طرح بھی ایک دانشمندانہ قدم نہیں سمجھا جائے گا۔
اس ساری کشیدہ و پیچیدہ فضا میں گزشتہ اتوار ایک یوم نو بن کر ابھرا۔ اس روز پاکستان کے تین اہم ترین شہروں میں تین جلسے منعقد ہوئے تینوں نہایت مثبت جلسے تھے۔ ان تینوں جلسوں کے بیک وقت انعقاد سے 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے جلسوں کی یاد تازہ ہوگئی اس روز اسلام آباد میں عمران خان نےاپنی پرانی روش سے ہٹ کر نہایت فصاحت اور صراحت کے ساتھ ایک مرکزی نقطے تک اپنی تقریر کو محدود رکھا۔ انہوں نے کرپشن کے خاتمے کو اپنا موضوع بنایا اور ساری جماعتوں کو نشانہ تنقید بنانے کی بجائے صرف میاں نواز شریف کی کرپشن کے حوالے سے مدلل خطاب کیا۔ ہمیں عمران خان کی حکمت و دانش اور احتجاجی سیاست سے بہت اختلافات رہے ہیں مگر اتوار کے روز عمران خان کی تقریر عالمی شعور اور جذبہ حب الوطنی سے معمور تھی۔ صاف واضح تھا کہ عمران خان نے اپنے مشیروں اور ناصحوں کی نصیحت پر کان دھرے ہیں اور اپنے لب و لہجے، خطاب کے مندرجات اور انداز بیان میں بہت سی اصلاحات کی ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے بعض قائدین نے عمران خان کو نواز فوبیااور پاگل کا طعنہ دیا ہے۔
اتوار کے ہی روز لاہور میں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے ایک جذباتی مگر پرمغز خطاب کیا اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم صمیم کا اعادہ کیا۔ جناب سراج الحق کو نہایت گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا کہ ان کا ووٹ بینک بتدریج کیوں کم ہورہا ہے۔ 2002ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے ساتھ مل کر تاریخی فتح حاصل کی اور دینی جماعتوں کے اتحاد کو قومی اسمبلی میں مرکزی اپوزیشن کا مرتبہ حاصل ہوگیا۔ مگر اس کامیابی کے بعد جماعت کو ایک بار پھر انتخابی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی کی دیانت و امانت کو نہ صرف مخالف سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں بلکہ عوام بھی دل و جان سے مانتے ہیں کہ جماعت نے پاکستان کی سیاست میں اقتدار کے اندر یا اقتدار سے باہر ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی۔ اس حقیقت کے باوجود جماعت کو سوچنا چاہئے کہ اسے عوام میں پذیرائی کیوں نہیں ملتی۔ اس روز ریحام خان نے جماعت اسلامی کے جلسے میں شمولیت کرکے زبان حال سے عوام کو یہ پیغام دیا کہ اجلے دامن کی نعمت سے سرشار اس جماعت کو بھی اقتدار دے کر دیکھنا چاہئے۔
24؍اپریل کے اتوار کا حاصل اگر میں جناب مصطفیٰ کمال کے باکمال خطاب کو قرار دوں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ ذرا چشم تصور سے سوچئے کہ جس شہر میں گزشتہ تیس پینتیس برس سے نفرت و تشدد، کشت و خون، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لسانی و علاقائی تعصبات کا راج ہو۔آج وہاں کوئی شخص ببانگ دہل کہہ رہا ہو کہ ہم را کے ایجنٹوں، کرائے کے قاتلوں اور بھتہ خوروں سے اس شہر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کردیں گے۔ یہاں کوئی سندھی، بلوچی، مہاجر اور پٹھان دست و گریباں نہیں ہوگا۔ یہ شہر امن کا شہر ہوگا۔ جناب مصطفیٰ کمال نے پانی، بجلی، گیس، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لئے شہری حکومتوں کو مکمل اختیارات دینے پر زور دیا۔
سیاسی پنڈتوں اور دانشور کالم نگاروں سے ہماری گزارش ہوگی کہ وہ ستاروں کی چالوں کے بجائے سیاست دانوں کی چالوں پر نگاہ رکھیں اور عوام کی رہنمائی کریں کہ کون انہیں قبائلی و استحصالی کلچر سے نجات دلا سکتا ہے اور ان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ جہاں تک ستاروں سے رہنمائی حاصل کرنے کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال ہماری رہنمائی کرچکے ہیں۔
ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں