اگر پاناما لیکس کا انکشاف یکم اپریل کو ہوتا تو اس کو اپریل فول سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا۔ مگر 2 اپریل کے انکشاف نے دنیا میں کھلبلی مچا دی۔ ان میں 200کے قریب پاکستانی سیاست دانوں، تاجروں اور کاروباری افراد کے نام بھی تھے، لہٰذا یہاں استعفوں اور تحقیقات کی باتیں ہونے لگیں۔ مطالبہ یہ تھا کہ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی سرکردگی میں کمیشن بنایا جائے۔ ہفتہ عشرہ خط لکھنےمیں لگ گیا اور چیف جسٹس ترکی چلے گئے اور معاملہ یکم مئی تک ٹل گیا۔ دوسرا بڑا دفاعی واقعہ فوج میں پیش آگیا اور چند سینئر افسران کو کرپشن اور احتساب کی خاطر ریٹائر ہونا اور اپنی مراعات سے محروم ہونا پڑا۔ابھی حالات یکسو نہیں ہوئے تھے کہ 2جون کو قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس بلانے کا اعلان کردیا گیا اور 2جون کو 2016-17 کا بجٹ (اگر تاریخ میں اضافہ نہیں ہوا) پیش ہوگا۔ اب سب کی توجہ بجٹ پر مرکوز ہوگئی۔ اس کا آغاز جنگ میڈیا گروپ کی اس پری بجٹ کانفرنس سے ہوا جس کا انعقاد 23اپریل کو وزیر خزانہ کی سرکردگی میں اسلام آباد میں ہوا۔ جس میں بنکوں کے اعلیٰ عہدہ دار، صنعت کار، کاروباری کمپنیوں کے عہدے دار اور طلبہ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ وزیر خزانہ نے ایک گھنٹے تک آئندہ کے خدوخال پر روشنی ڈالی اور سوال و جواب کا مرحلہ بھی ہوا۔ دوسرے نمائندوں نے تقریریں کیں۔ وزیر صاحب نے یقین دلایا کہ میری ٹیم نے کانفرنس میں پیش ہونے والی تجاویز کو نوٹ کرلیا ہے اور ان کو بجٹ کا حصہ بنانے پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے اسٹیٹ ہولڈرز سےبھی درخواست کی کہ وہ بجٹ کو مفید بنانے کی تجویز دیں۔ انہوں نے دردمندانہ اپیل کی کہ ’’خدا کے لئے ملکی معیشت اور اقتصادیات کے معاملات کو سیاست سے الگ رکھیںگوکہ بجٹ سازی میں بہت سی باتوں کو دیکھنا اور بہت سے امور کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر بجٹ چند بنیادی اجزا کے گرد گردش کرتا ہے۔ مثلاً ٹیکس گزاروں کی تعداد اور ان سے وصول ہونے والی کل رقم، قرض کی رقموں کے اصل اور سود کی واپسی، بیرون ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی ارسال کردہ رقوم، دفاع پر اٹھنے والے اخراجات ، برآمدات اور درآمدات میں توازن ، تجارت کا سرپلس میں ہونا۔ ملکی زراعت میں چند اہم فصلوں جیسے گندم، چاول، کپاس اور شکر کا کامیاب اور بارآور ہونا، ملک کی آبادی اور اس میں اضافے کی سالانہ رفتار، ذرائع روزگار کا آبادی کے تناسب سے بڑھنا اور قیمتوں کا اعتدال پر رہنا۔
حکومت کی جانب سے بجٹ کو ہمیشہ عوام دوست کہا جاتا ہے اور اس کی بڑھ چڑھ کر تعریف کی جاتی ہے۔ 2016-17کا وفاقی بجٹ 3,6,00ارب روپے کے مساوی ہوگا یہ رقم اس ہدف کے مقابلے میں رکھی ہے جو سال رواں کا ہدف 3100 ارب روپے تھا اور حکومت نے 97روز میں 2,284ارب روپیہ وصول کرلیا۔ حکومت کو امید ہے کہ بقیہ دنوں میں 816 ارب یا اس کے قریب قریب رقم جمع کرلے گی۔ پاکستان کا مجموعی قرضہ 150کھرب روپے ہے غیر ملکی قرضہ 55کھرب اور اندرونی قرضہ 131کھرب ہے۔ جون 2013 سے جنوری 2016تک 10ارب 23کروڑ ڈالر کا قرضہ واپس کیا۔ ملکی قرضہ واپس کرنے کے لئے بازار سے دوبارہ قرضہ لیا۔ دراصل حکومت خسارے پر چل رہی ہے اور اس کو حکومتی انتظام کے لئے قرض لینا پڑتا ہے۔ گزشتہ 5برس میں بیرون ملکوں میں مقیم پاکستانیوں نے 72ارب 86کروڑ ڈالر بھجوائے۔ نیب کے مطابق ڈائریکٹرجنرل نے کراچی یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر روز 133ارب روپے کی کرپشن سے شدید نقصان ہورہا ہے۔ اگر یہ عدد مبالغہ آمیز ہے تب بھی اس کے اردگرد کی رقم ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ آئی ایم ایف سال رواں کی معیشت پر اپنے ردعمل کا اظہار ان الفاظ سے شروع کرتا ہے کہ پاکستانی معیشت مستقبل قریب میں سخت مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی معیشت کی بحالی کے لئے اب تک ہونے والی کوششوںکیلئے دھچکا ثابت ہوسکتی ہے۔ مجموعی طور پر تین سال میں ملک کی سیکورٹی بہتر ہوئی ہے لیکن اکادکا واقعات سے غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کی دل شکنی ہوئی ہے اس نے بڑی تفصیل سے تجزیہ کیا ہے ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کے سبب پاکستانی برآمدات کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اورآئندہ کرنا پڑے گا اس سلسلے میں اس نے گندم ، کپاس اور شکر کی برآمدات کا ذکر کیا ہے۔
چونکہ آئی ایم ایف سے ہم قرض لیتے ہیں اس لئے اس کو ہندوستانی بنیے کے مماثل تصور نہ کیا جائےبنیے کو صرف اپنی رقم اور سود کی فکر اور ضمانتی اراضی یا جائیداد کی فکر ہوتی تھی۔ فنڈ کو بھی اپنی قرض دی ہوئی رقم کی حفاظت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر وہ مقروض قوم کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نیا بجٹ کیا گل کھلاتا ہے۔ نو لاکھ 80ہزار ووٹروں میں سے کتنوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کامیاب ہوتا ہے وفاقی ملازمین کی تعداد 10 اور 12لاکھ کے درمیان ہے ان کی تنخواہوں اور پنشنوں میں افراط زر کے لحاظ سے الگ اضافہ ہوگا۔ اخبارات میں وزارت خزانہ کے ٓذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ فنڈ سے کچھ کڑی شرائط کا پروگرام ستمبر میں ختم ہوجائے گا یوں حکومت نے اکتوبر میں آئی ایم ایف سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ ستمبر تک فنڈ سے ایک ارب ڈالر کی دو قسطیں ملیں گی اور اس سال جون سے پہلے 50کروڑ ڈالر کے سکوک بانڈ جاری کئے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اور نئے قرض کی ضرورت بھی نہیں ہے اور اس طرح فنڈکی کوئی بھی شرط پاکستان پر لاگو نہیں رہے گی (یہ عارضی صورت حال ہے مستقبل میں ورلڈ بنک، مالیاتی فنڈایشیائی ترقیاتی ڈیویلپمنٹ بنک سے پیچھا نہیں چھوٹے گا) اور قوم 3جون تک بجٹ کے بخار میں مبتلا رہے گی۔