سوشل میڈیا نے شہروں میں جہاں نوجوانوں میں بے راہ روی کا طوفان اٹھایا تھا اب دیہات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ چند سال قبل تک شہروں میں آنے والی خواتین کے ہاتھ جو کسی وقت بچے یا سودا سلف کو تھامے ہوتے تھے اور شرماتی لجاتی خواتین برقعے کی نقاب کو الٹائے بغیر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ دوکانوں پر بزرگ خواتین یا گھر والے کے ساتھ اپنی پسند کی چوڑی ، کپڑے ، زیورات کی خریداری کرتی نظر آتی تھیں اب یہی خواتین ٹچ موبائل اور انٹر نیٹ کا استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔
موبائل فون جس نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا کر چند انچ کی موبائل اسکرین پر لاکھڑا کیا ہے اس کے ذریعے جہاں دنیا جہاں کی مفید معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں وہی نوجوان لڑکیوں کے غیر محرم لڑکوں سے رابطوں سے آسانی کے ذریعے جواں لڑکے لڑکیوں کو بھی یورپ کی طرح آزادی کی راہ پر گامزن کردیا ہے اور پسند کی شادی جو کہ سندھ میں ایک طعنہ کی حیثیت رکھتی تھی اب فیشن بنتی جارہی ہے۔
اس دور میں پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ اب گاؤں، دیہات کی لڑکیاں اور لڑکے بھی پیچھے نہیں رہے ہیں جب کہ شادی کا جھانسہ دے کر سیدھی سادھی لڑکیوں کو بے وقوف بنانے والے مردوں کو تفریح طبع کا بھی موقع مل گیا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ پرانے نواب شاہ کے ایک شادی ہال میں پیش آیا جب پسند کی دوسری شادی کرنے والے ٹیچر پر جو کہ دولہا بنا خواتین کے ہال میں سلامی کے لئے پہنچا تھا ۔اس کی رشتہ دار خاتون نے چھری سے وار کرکے اسے زخمی کردیا۔
شادی ہال جو کہ باراتیوں سے بھرا پڑا تھا اور مہمان وہاں پہنچ رہے تھے ایک برقعہ پوش خاتون اس شادی ہال کے لیڈیز حصے کی جانب بڑھی اور اس دوران کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ تھوڑی دیر میں کیا ہونے والا اور اس خاتون نے جو کہ اپنے برقعہ میں چھری چھپا کر لائی تھی دولہا نیاز مہر کے پیٹ میں چھری گھونپ دی۔ اس اچانک حملے کے لئے دولہا اور نہ ہی وہاں موجود خواتین تیا ر نہ تھیں ۔اس سلسلے میں پولیس کے مطابق نیاز مہر نامی شخص جو کہ ٹیچر ہے اس کی دوسری شادی کی تقریب شادی ہال میں جاری تھی کہ اچانک ناہید مہر نامی خاتون برقعے میں چھری چھپا کر لائی اور دولہا پر اس وقت حملہ کردیا جب وہ دلہن کے ساتھ تصویر بنوا رہا تھا ۔
دولہا نیاز مہر کے پیٹ میں چھری لگنے سے شدید زخمی ہوگیا اور شادی ہال میں افراتفری اور بھگدڑ مچ گئی ۔پولیس کے مطابق زخمی دولہا کو اسپتال منتقل گیا گیا جبکہ حملہ آور لڑکی کو پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ اپنے بیان میں ناہید مہر نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے گاؤں کے اسکول ٹیچر نیاز مہر کے پاس ٹیوشن پڑھتی تھی اس دوران ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے پسند کرنے کے بعد نیاز مہر کی جانب سے شادی کی یقین دہانی کرائی اور ناہید مہر کے بقول وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے جو صرف ناہید مہر سے ہوگی۔
اسی دوران دونوں کے درمیان تعلقات بھی قائم ہوگئے تاہم نیاز مہر نے وعدہ وفا نہیں کیا اور اس نے ناہید مہر کو بغیر بتائے نواب شاہ کی ایک لڑکی سے خفیہ طور پر شادی رچائی جس کا مجھے پتہ چلا کہ نیاز مہر جس نے مجھے سے شادی کے وعدے کئے تھے، اس کی دوسری شادی کی رسومات شادی ہال میں جاری ہے جس پر میں انتقام کی آگ میں جل اٹھی اور چھری برقعہ میں چھپا کر شادی ہال پہنچی اور دیکھا کہ نیاز مہر اپنی دلہن کے ساتھ تصوریں بنوا رہا ہے ۔
یہ دیکھ کر میری قوت برداشت جواب دے گئی اور وعدہ خلاف شخص پر حملہ کرکے اس کے پیٹ میں چھری گھونپ دی۔ اس سلسلے میں وقوعہ کے بعد جب پولیس کو اطلاع ملی ۔ پولیس نے ناہید مہر کو چھری سمیت حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن پہنچایا گیا جب کہ زخمی دولہا کو پیپلز میڈیکل اسپتال منتقل کردیا گیا۔
اسی دوران نیاز مہر اور ناہید مہر کے رشتہ دار پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں انہوں نے پولیس کو یقین دہانی کرائی کہ ناہید مہر ذہنی دباؤ کا شکار تھی جس پر اس نے حملہ کیا تاہم نیاز مہر نے اسے معاف کردیا ہے اور ہم دونوں کوئی قانونی کاروائی کروانا نہیں چاہتے کہ دونوں جانب رشتہ دار ہیں ۔جس پر پولیس نے لڑکی ناہید مہر کو رشتہ داروں کے حوالے کردیا۔
تاہم کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کہانی کا ڈرامائی موڑ ااس وقت سامنے آیا کہ اسی شام لڑکی ناہید مہر کے رشتہ دار ایمبولینس میں لڑکی کی لاش لے کر اسپتال پہنچے جہاں انہوں نے بتایا کہ ناہید مہر نے گھر پہنچ کر گلے میں ڈوپٹا باندھ کر خودکشی کرلی ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹروں نے بھی خودکشی کی تصدیق کردی اور گلے میں پھندے کے نشانات واضح تھے۔ بعد ازاں کارروائی کے بعد لاش کو رشتہ داروں کے حوالے کردیا گیا۔
تاہم اس سارے منظر میں یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل میں جو بے راہ روی کا زہر پھیل رہا ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے اور اس سلسلے میں معاشرے کے باشعور طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور اپنی نسل کو بچانے کے لئے اقدامات کرے۔
پسند کی شادی جو کہ اپنے فیشن بنتی جارہی ہے اس کی ایک مثال پرانے نواب شاہ میں ہی بلوچ کالونی کی ڈاکٹر سوہا بلوچ کی شکل میں سامنے آئی جب اس نے موبائل شاپ کیپر ارسلان انصاری سے شادی کرلی لیکن اس شادی کو اس کے رشتہ داروں نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔
تاہم ڈاکٹر سوہا بلوچ اپنے شوہر ارسلان انصاری کے ہمراہ تحفظ کے لئے ایڈیشنل ڈسڑکٹ سیشن جج کی عدالت میں پہنچی تو ڈاکٹر سوہا کے رشتہ دار علم ہونے پر بلوچ کالونی کے سینکڑوں افراد کے ہمراہ عدالت کے احاطے میں جمع ہوگئے جہاں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر سوہا بلوچ کو ان کے حوالے کیا جائے۔
اسی دوران ہنگامہ آرائی شروع ہوئی تو پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں پہنچی اور عدالت کے احاطے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار اور چار مظاہرین زخمی ہوئے۔ اس ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس ڈاکٹر سوہا بلوچ اور اس کے شوہر ارسلان انصاری کو اپنی حفاظت میں کورٹ سے باہر لے گئی ۔
عدالت نے دو روز کے بعد سماعت کا وقت دیا تاہم دو دن کے بعد جب عدالت میں پیشی ہوئی اس موقع پرڈی ایس پی مبین احمد پڑھیار کے مطابق شہر کے تمام تھانوں کی پولیس عدالت کے چاروں اطراف موجو د تھی اور اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اویس ابڑو کی عدالت نے ارسلان انصاری سے ایک لاکھ روپے کا مچلکہ کے عیوض ڈاکٹر سوہا بلوچ کی مرضی کے ساتھ اسے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
ان دونوں واقعات میں جس میں پسند کی شادی کرنے کے شاخسانہ میں جہاں عدالتی تقدس کی پامالی ہوئی تاہم پولیس کی بہتر حکمت عملی کے نتیجے میں معاملات کو بگڑنے سے بچا لیا گیا وہی پسند کی دوسری شادی کرنے والے اسکول ٹیچر کی شادی کے شاخسانہ میں ایک بھولی بھالی لڑکی کی جان چلی گئی اس سلسلے میں یہ امر قابل غور ہے کہ اس طرح کے واقعات کو رونما ہونے سے کیسے روکا جائے اس بارے میں علمائے کرام اور دانشور اپنا کردار ادا کریں تاکہ معاشرے میں اخلاق اقدار کو پروان چڑھا کر بے راہ روی کی لہر کو روکا جاسکے۔