کرکٹرز پاکستانی نوجوان نسل کے رول ماڈل اور ہیروز ہیں یہی وجہ ہے ملک کے اسٹار کرکٹرز کو مختلف پراڈکٹ کی تشہیر کے لئے کروڑوں روپے کے عوض اشتہارات میں لیا جاتا ہے۔ اسے ستم یا بد قسمتی کہہ لیں کہ پاکستان کرکٹرز میں چند نام ہر دور میں منفی خبروں کی وجہ سےرہتے ہیں۔کرکٹرز کبھی ساحل پر نشہ کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں اور کبھی چند سکوں کے عوض سٹے بازی میں ملوث ہوجاتے ہیں جس سے ملک اور اپنے اہل خانہ کو بدنامی ملتی ہے۔پاکستانی کرکٹرز کے اسکینڈل کسی سے پوشیدہ نہیں،بعض اسکینڈل ان کے پرستاروں کو دکھ دے جاتے ہیں۔
چند ہفتوں سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور دنیا کے مشہور بیٹسمین بابر اعظم بھی اپنی بچپن کی دوست کے ساتھ ایک منفی اسکینڈل کو لے کر شہ سرخیوں میں ہیں۔جنوبی افریقا کے دورے کی تیاری کے لئے لگائے گئے تربیتی کیمپ کے آغاز پر پریس کانفرنس میں بابر اعظم سے جب اس بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ اس اسکینڈل کے حوالے سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔عام طور پر کرکٹرز ہزاروں کے مجمع میں کھل کر کھیلتے ہیں اور جم کر بولتے ہیں۔
اپنی بیٹنگ سے دنیا کے بولروں کے چھکے چھڑانے والے بابر اعظم کو جب سوالوں کے بائونسرز کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بار بار بیٹ ہوتے رہے اور تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔بابراعظم کا کہنا ہےکہ ان پر خاتون کے الزامات کا معاملہ عدالت میں ہے جس پر جلد فیصلہ ہوجائے گا اس لیے بات نہیں کرسکتے۔میرے وکلاء اس کیس کو دیکھ رہے ہیں یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے تبصرہ نہیں کروں گا۔بابر اعظم اس وقت پاکستان کے نمبر ایک کرکٹر ہیں سپر اسٹار ہونے کی وجہ سے ان کی نجی زندگی کی کہانی اب مقامی اور انٹر نیشنل میڈیا کی زینت بن رہی ہے۔
یہ اسکینڈل یقینی طور پر بابر اعظم اور ان کے خاندان کے لئے پریشانی کا سبب بن رہاہوگا۔ایسے میں کیا وہ کپتانی کے ساتھ بیٹنگ لائن کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاسکیں گے۔جنوبی افریقا اور زمبابوے کے دوروں کے لئے تینوں فارمیٹس کی ٹیموں کے اعلان کے ساتھ ہی میڈیا میں یہ باتیں بھی گردش میں ہیں کہ وہ چیف سلیکٹر محمد وسیم کی منتخب کردہ ٹیم سے مطمین نہیں ہیں۔بابراعظم کا کہنا ہے کہ جو باتیں سلیکشن میٹنگ میں ہوں ، انہیں روم سے باہر نہیں نکلنا چاہئے، سلیکشن کے معاملے میں اتفاق اور نا اتفاقی ساتھ چلتی ہے، یہ میری ٹیم نہیں پاکستان کی ٹیم ہے جو کردار دیا گیا اسے پورا کر رہا ہوں۔ شرجیل خان کی فارم اچھی ہے، گیم چینج کرسکتا ہے، فٹنس کا اتنا بھی مسئلہ نہیں، تھوڑا وزن زیادہ ہے۔
پاکستان کا یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے ہمیں سیریز میں جیتنا ہے، جیت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ چیف سلیکٹر تمام کھلاڑیوں کے بارے میں بتا چکے ہیں کہ کس کو کیوں ڈراپ کیا گیا اور کس کو کیوں شامل کیا گیا، میرا اس پر تبصرہ کرنا ضروری نہیں، مجھے میدان میں 11 کھلاڑی کھلانے ہیں اور ان پر فوکس ہے۔واضع رہے میڈیا میں یہ قیاس آرائی گردش کررہی ہے محمد وسیم اور سلیکٹرز نے ٹیم بناتے وقت بابر اعظم کی رائے کو نظر انداز کیا ہے۔محمد وسیم چیف سلیکٹر بنتے ہی متنازع ہوگئے ، ان کی منتخب کی ہوئی ٹیم پر ہر جانب سے تنقید ہورہی ہے۔
چیف سلیکٹر محمد وسیم کا کہنا ہے کہ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم انتظامیہ میں اختلافات کا تاثر درست نہیں، بابر اعظم سلیکشن میں رائے دیتے ہیں ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔سلیکشن میں کسی بھی موقع پر ڈیڈ لاک نہیں ہوا ۔جنوبی افریقا اور زمبابوے کی ٹیمیں بھی کپتان بابر اعظم کی مکمل مشاروت سے بنائی گئی ہیں۔ہاں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے۔یہ تاثر غلط ہے کہ کئی سنیئر کرکٹرز کو پاکستان ٹیم سے ڈراپ کرکے ٹیم میں پلیئرز پاور کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔
محمد وسیم نے کہا کہ میں پلیئرز پاور پر یقین ہی نہیں رکھتا۔کوئی کھلاڑی اگر ٹیم سے ڈراپ ہوتا ہے تو اس کے لئے پلیئرز پاور کی اصطلاح کو استعما ل کرنا درست نہیں ہے۔واضع رہے کہ حالیہ دنوں میں شعیب ملک،وہاب ریاض،شان مسعود،عماد وسیم ،یاسر شاہ سمیت کئی سنیئر کو پاکستان ٹیم سے مختلف وجوہات کی بناء پر ڈراپ کیا گیا ہے۔چیئرمین احسان مانی کا کہنا ہے کہ ٹیم کے انتخاب کے لئے ہم نے ایک سسٹم بنایا ہے اس لئے میں ٹیم سلیکشن پر کوئی بات نہیں کروں گا۔
کپتان اور چیف سلیکٹر مل کر ٹیم بناتے ہیں۔میرے پاس حتمی منظوری کے لئے ٹیم آتی ہے لیکن میں اس میں کوئی ردوبدل نہیں کرتا ۔پاکستان سپر لیگ کے ملتوی ہونے سے پاکستان ٹیم کے اعلان تک پاکستان کرکٹ بورڈ مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔تنقید تو کلبوں کی رجسٹریشن کے طریقہ کار پر بھی ہورہی ہے۔کسی بھی ادارے کےبارے میں جب اتنی کہانیاں میڈیا میں ہوں تو اس سے اچھا تاثر نہیں ملتا اور اس کی گورنس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ عظیم کرکٹر انضمام الحق کہتے ہیں کہ سلیکشن پرتنازع پیدا ہوا ہے لیکن بورڈ نے منہ پر چپ لگائی ہوئی ہے ۔ محمد وسیم کو کسی کے کہنے پر چیف سلیکٹر بنا دیا گیا۔
چیف سلیکٹر بنوانے والی قوتیں پیچھے سے چلا رہی ہیں ۔ یہ کہاں کی سلیکشن کہ آپ اتنی تبدیلیاں کریں ۔ دو دو میچز کھیلنے والوں کو منتخب کر لیا ۔ بورڈ کو کیسے چلایا جا رہا ہے ۔ کوئی پوچھ ہی نہیں رہا ۔ سلیکشن کا معیار بنائیں ۔
انضمام الحق نےکہا کہ چیف سلیکٹر کسی کے ہاتھوں میں مت کھیلیں اپنی سوچ استعمال کریں ۔ محمد وسیم کا معیار کیا ہے ۔ اس لیے لایا گیا کہ مرضی کے فیصلے کرائے جا سکیں ۔ بورڈ میں لانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ نیچے کیا ہو رہا ہے۔انضمام الحق کے سوالات ،بابر اعظم،محمد وسیم اور احسان مانی کے جوابات کے باوجود یقینی طور پر دال میں کچھ کالا ہے۔یہ سب کرکٹ کے لئے نقصان دے ہے۔