عموماً شاعر، فطرت کی ترجمانی کے ساتھ اپنے افکار، تخیّلات، عملی مشاہدات اور تجربات ہی کی بنیاد پر انتہائی اور فہم و فراست سے عوامی جذبات، سماجی ناانصافیوں اور استحصالی نظام کی غیرانسانی یا غیر اخلاقی حقیقتوں کو آشکار کرتے ہیں اور یہ شعراء کرام ہی ہیں، جو اپنی شاعری، گیتوں اور نغموں کے ذریعے پس ماندہ اور غربت و بدحالی کی چکّی میں پستے عوام میں سماجی شعور بیدار کرکے انقلاب کے عظیم آدرش کے راہ ہم وار کرتے ہیں۔ معروف عوامی و انقلابی شاعر ، حبیب جالب کا شمار بھی ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی شاعری سے محنت کش، پِسے ہوئے طبقے کے اندر احساس جگاکر انہیں بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ وہ 24؍مارچ 1928ء کو بھارتی پنجاب کے ضلع، ہوشیارپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا صوفی عنایت اللہ اور والدہ کا نام رابعہ بصری تھا۔ انہوں نے ساتویں جماعت ہی سے شعر کہنا شروع کردیئے تھے۔ ابتدا میں حبیب احمد مست میانوی کے نام سے اشعار لکھتے رہے۔ دہلی میں اپنے بھائی مشتاق مبارک کے ساتھ کئی اردو مشاعروں میں بھی شریک ہوئے، جہاں اردو کے معروف شعراء جگر مراد آبادی، بے خود اور داغ دہلوی کے کلام سن کر مزید پختگی حاصل کی۔ غریب گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے گھر کی کفالت کے لیے مزدوری بھی کی۔
وہ جب اسکول میں زیر تعلیم تھے، تو اس وقت دوسری جنگِ عظیم عروج پر تھی، اسکول سے لوٹتے ہی فوجی بیرکوں میں مزدوری کی خاطر چلے جاتے، جہاں دیگر بچّوں کے ساتھ تھیلوں میں چنے بھرنے کا کام کرتے۔ انہیں 100تھیلے بھرنے کی مزدوری 12آنے ملتی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب کراچی آئے، تو بندرگاہ پر مزدوری کی ساتھ ہی جیکب لائن، کراچی کے سرکاری اسکول میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔
میٹرک کے بعد روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی اور روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں بطور پروف ریڈر کام کرتے رہے۔ تاہم، آزاد طبع ہونے کی وجہ سے مستقل کسی ایک جگہ نہیں ٹکے، اخبار کی ملازمت چھوڑ کر فیصل آباد میں کپڑے کے کارخانے سے منسلک ہوگئے۔ وہاں ملازمت کے دوران ایک مشاعرے میں جب صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر تنقیدی اشعار پڑھے، تو انہیں نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
وہ ایک ثابت قدم انسان تھے۔ انہوں نے جونظریہ اور انقلابی راہ اختیار کی، اُس پر آخر وقت تک قائم رہے، بلکہ اپنے عملی کردار کے ذریعے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ رواجی انقلابی نہیں، بلکہ ایک عملی مجاہد ہیں۔ وہ ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہم درد انسان بھی تھے، جس کے سینے میں ایک حسّاس دل دھڑکتا تھا۔ وہ محض اپنے ملک اور عوام ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے مظلوم اور محکوم طبقے کے دُکھ درد کو شدّت سے محسوس کرتے تھے۔
ہمیشہ غریبوں، مسکینوں، ہاریوں اور محنت کش طبقے کو بھوک اور بدحالی کی دلدل سے نکالنے کے لیے انہیں اپنا موضوعِ سخن بنا کر جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کو للکارتے رہے اور مظلوم طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے شاعری کو اپنا ہتھیار بنایا۔ اُن کی شاعری عشق و محبت، موسموں، پھول پودوں یا چاند ستاروں پر محیط نہیں تھی، بلکہ وہ آزادی، امن و اتحاد، محبت و یگانگت، عالم ِانسانیت اور دھرتی کے بھی شاعر تھے۔ انسانیت کے فروغ، دھرتی کی خُوب صُورتی، سلامتی و بقا کے امَر گیت لکھے، تو امن و محبّت کے لازوال نغمے تخلیق کیے۔
اُن کی شاعرانہ نگاہ اور حسّاس دل زندگی کو ہمیشہ ہنستے مُسکراتے دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ زندگی و آسودگی کے دشمنوں پر اپنی شاعری کی تیر برساتے رہے؎جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے.....مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے.....بہت ہوائیں چلیں میرا رخ بدلنے کو.....مگر نگاہ میں وہ سرزمین آج بھی ہے.....صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ .....یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے۔
جالب کی شاعری میں جہاں دکھی انسانیت کا پُرآشوب درد شامل تھا، وہیں وہ آنے والے خُوب صُورت زمانے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ بے شمار مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود وہ ہر لمحہ خطرات کو للکارنے پر تُلے رہتے۔جنرل ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جب جنرل یحییٰ خان برسرِاقتدار آئے، تو کوہِ مری میں فیض احمد فیض کی صدارت میں منعقدہ مشاعرے میں جالب نےحاضرین کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا، آج بہت عرصے بعد فیض صاحب کی صدارت میں ایک غزل سنانا چاہتا ہوں، جو جنرل یحییٰ کی جانب منسوب ہے؎تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشیں تھا.....اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا یقین تھا.....کوئی ٹھہرا ہو، جو لوگوں کے مدِمقابل تو بتائو.....وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا.....اب وہ پِھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو.....اک زمانے میں مزاج ان کا سرِ عرشِ بریں تھا۔اپنی جرأتِ اظہار سے اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال لانے والے حبیب جالب بنیادی طور پر ایک نظریاتی شاعر تھے، جو عالمِ انسانیت کی بقا و خوش حالی اور سلامتی پر یقین رکھتے تھے۔
وہ سماجی بے قاعدگیوں، ظلم و ناانصافی، معاشرتی ناہم واریوں اور اخلاقی پستی کے خلاف اور ایک حقیقی عوامی جمہوریت کے قائل تھے۔ 1988ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں، تو جالب پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی گئیں۔ لیکن جالب ایک اصول پرست شاعر تھے۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں بھی بڑھتی ہوئی کرپشن دیکھی، تو چُپ نہ رہ سکے اور برملا اظہار کردیا؎وہی حالات ہیں فقیروں کے.....دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے.....ہر بلاول ہے دیس کا مقروض.....پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔
یہ خود دار شاعر جب شدید بیمار پڑا، تو اُس وقت کی وزیراعظم، بے نظیر بھٹو اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ عیادت کے لیے اُن کے گھر تشریف لائیں اور بیرونِ ملک سرکاری خرچ پر علاج کی پیش کش کی، تو انہوں نے یہ کہہ کر اُن کی پیش کش ٹھکرادی کہ ’’مَیں نے اس سے قبل بھی کسی حکومت کی اس طرح کی کوئی پیش کش کبھی قبول نہیں کی، یہاں لوگوں کو علاج کے لیے ایک گولی ڈسپرین کی میسّر نہیں، مَیں بیرونِ ملک کیسے علاج کے لیے چلا جائوں۔‘‘
بعدازاں، محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَور میں جالب کی جرأت مندانہ شاعری کے اعتراف میں اُنہیں ’’جمہوریت ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا اور ایوارڈ کے ساتھ ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بھی دی گئی، جسے جالب نے لینے سے یک سر انکار کردیا۔ تاہم بعدازاں، دوستوں اور بہی خواہوں کے بے حد اصرار اور مشورے پر قبول کرلی۔
قبلِ ازیں اُس وقت کے وزیر داخلہ، چوہدری شجاعت جب علالت کے موقعے پر جالب کی عیادت کرنے آئے (چوہدری شجاعت کے والد، چوہدری ظہور الٰہی جالب کے دیرینہ رفیق اور قدر دان تھے) تو جالب کو حکومت کی جانب سے 5لاکھ روپے کا عطیہ دینے کی کوشش کی۔ جس پر انہوں نے پیار سے کہا ’’مَیں تمہیں اپنا بھتیجا سمجھتا ہوں اور اس حیثیت سے اگر تم مجھے کچھ دینا ہی چاہتے ہو تو 50روپے میرے سرہانے رکھ جائو۔ مَیں بخوشی سے قبول کرلوں گا، مگر ایک وزیر کی طرف سے 5لاکھ روپے قبول نہیں کرسکتا۔‘‘ واضح رہے کہ انہوں نے غربت اور مفلسی کے باوجود عراق، ایران اور لیبیا کی حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ چیکس بھی واپس کردئیے تھے۔
حبیب جالب کے بارہ شعری مجموعے شایع ہوئے، جن میں برگِ آوارہ، سرِمقتل، عہدِ ستم، ذکر بہتے خون کا،گنبدِ بے در،گوشے میں قفس کے،اس شہر خرابہ میں اور حرفِ سرداکے علاوہ جالب نامہ، کلیات اور جالب چاروں جانب سناٹا قابل ذکر ہیں۔ غریب عوام کا یہ امیر شاعر 12؍مارچ 1993ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا، مگر آج بھی اس کی شاعری کو سن اور پڑھ کر ایک امید ضرور بندھتی ہے۔ سچائی اور آزادی کے حصول پر یقین تازہ ہوجاتا ہے۔