اسمگل شدہ اشیاء کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنا بھی سنگین جرم ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے قومی خزانے کو سالانہ خطیر رقم کا نقصان پہنچایا جارہے۔ اسمگلنگ جیسے عمل کی روک تھام کے لیے ملک میں محکمہ ایف بی آر، کسٹم اور دیگر متعلقہ محکمے بھی قائم ہیں، جب کہ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اس اہم اور سنگین نوعیت کے معاملے پر خصوصی توجہ دی اور ملکی خزانے کو ٹیکس کی مد میں ہونے والے نقصان سے بچانے کے لیے محکمہ ایف بی آر اور کسٹم و دیگر متعلقہ محکموں کے افسران کو احکامات دیے تھے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے، لیکن متعلقہ محکموں نے ان احکامات پر بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے، یہی وجہ ہے کہ اسمگلنگ شدہ مصنوعات کا کاروبار عروج پکڑتا جارہا ہے اور سندھ میں ضلع سکھر جو کہ سندھ کا تیسرا بڑا شہر اور تجارتی حَب ہے، یہ شہر اسمگل شدہ مصنوعات کی بڑی منڈی بن چکا ہے۔
اسمگلنگ کی روک تھام کے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے کے باعث قومی خزانے کو ٹیکس کی مَد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے، محکمہ ایف بی آر کسٹم اور دیگر متعلقہ محکموں کا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نظر نہیں آتا،جس کی وجہ سے مارکیٹیں نان کسٹم پیڈ اشیاء سے بھری ہوئی ہیں اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا اسمگل شدہ اشیاء کی خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا محکمہ ایف بی آر ، کسٹم یا دیگر متعلقہ محکموں کی ذمے داری نہیں ہے؟ اگر ان کی ذمے داری ہے، تو پھر کسٹم اور دیگر محکموں کے افسران کی جانب سے اسمگل شدہ مصنوعات کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والوں کےخلاف کوئی بڑی کارروائی یا اس کی روک تھام کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟
ہرسال کسٹم ڈے کے موقع پر 20 تیس کڑور روپے یا اس کم زیادہ رقم کا ممنوعہ سامان نظر آتش کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایف بی آر کے یہ ادارے اسمگلنگ کی روک تھام میں مصروف ہیں، لیکن اصل حقائق کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہیں، صرف اگر سکھر کی بات کی جائے تو اس شہر میں نان کسٹم پیڈ اشیاء کا ہولسیل اور پرچون کا کام بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے، سکھر شہر میں متعدد اشیاء کی ہول سیل مارکیٹیں ہیں، ان مارکیٹوں میں یومیہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، جن میں دیگر ایشاء کے ساتھ نان کسٹم پیڈ اشیاء بھی شامل ہوتی ہیں ۔ مختلف شہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد سامان کی خریداری کے لیے سکھر پہنچتی ہے۔
اہم تجارتی مراکز نشتر روڈ، ریشم گلی، چمٹا گلی، لیاقت چوک، بیراج روڈ، گھنٹہ گھر چوک، الیکٹرونک مارکیٹ، ڈھک روڈ، پان منڈی، شاہی بازار، اسٹیشن روڈ، سمیت دیگر علاقوں میں بڑے ہول سیل اور رٹیل کا کاروبار ہوتا ہے، اسمگل شدہ اشیاء کسٹم پیڈ اشیاء سے کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسمگل شدہ مصنوعات کا کاروبار کرنے والوں نے سکھر کو اپنی آماج گاہ بنالیا ہے اور بلوچستان کے مختلف شہروں سے اسمگل ہونےوالی کروڑوں روپے مالیت کی اشیاء براستہ جیکب آباد، سکھر کی مارکیٹوں میں پہنچائی جاتی ہیں اور یہاں سے ان نان کسٹم پیڈ اشیاء کو مختلف چھوٹے و بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے،جس سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں خطیر رقم کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ اسمگل شدہ یہ مصنوعات بلوچستان سے مسافر ٹرینوں، بسوں، پبلک و گڈز ٹرانسپورٹرز سمیت مختلف گاڑیوں کے ذریعے سکھر کی ہولسیل منڈیوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔اسمگل شدہ مصنوعات کی بکنگ دیگر اشیاء کے نام سے کرائی جاتی ہیں۔ تاہم بکنگ کرانے والے اور متعلقہ گڈز ٹرانسپورٹرز کو اس چیز کا علم بھی ہوتا ہے کہ اس میں اسمگل شدہ دیگر اشیاء موجود ہیں، لیکن اس طریقے سے اسمگلنگ کا یہ کام جاری تھا اور جاری ہے، یہ اسمگل شدہ اشیاء سکھر کی مارکیٹوں میں کُھلے عام فروخت ہوتی ہیں، لیکن متعلقہ محکمے اسمگل شدہ اشیاء کی خرید و فروخت کرنےوالوں کےخلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کرتے اور اسمگلنگ کی روک تھام میں محکمہ کسٹم اور متعلقہ محکمے غیر فعال دکھائی دیتے ہیں۔
متعلقہ محکموں کی جانب سے اسمگل شدہ مصنوعات کی خرید و فروخت کی روک تھام کے لیے تاحال کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکھر کی تجارتی مارکیٹوں میں غیر ملکی اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار ہے۔ سکھر میں الیکٹرونک سمیت دیگر مارکیٹوں میں اسمگل شدہ مال تھوک کے حساب سے موجود ہے۔ کاسمیٹکس و الیکٹرونکس کا سامان، گریس، گاڑیوں کے پرزہ جات، موبل آئل ، ٹائرز، صابن، اسپیئر پارٹس، کاسمیٹکس کا سامان، جیولری، کمبل، سگریٹ ، پان پراگ، گٹکا اور دیگر نشہ آور مصنوعات روزانہ مارکیٹوں میں لائی جاتی ہیں، خاص طور پر نشہ آور ممنوعہ اشیاء پان پراگ اور دیگر ناموں سے آنے والے گٹکے زیادہ مقدار میں لائے جاتے ہیں اور یہاں سے یہ اسمگل شدہ سامان اور نشہ آور مصنوعات خیرپور، گھوٹکی، نوشہروفیروز، دادو سمیت سندھ کے چھوٹے و بڑے شہروں میں بھجوائی جاتی ہیں، اس وقت بھی بھاری مقدار میں کروڑوں روپے کا اسمگل شدہ مال سکھر کی منڈیوں میں اور گوداموں موجود ہے۔ اسمگل شدہ اشیاء جن کی وارنٹی نہیں ہوتی۔
وہ وارنٹی والی اشیاء سے کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، اس طرح کی متعدد مارکیٹوں میں اسمگل شدہ سامان بغیر کسٹم ڈیوٹی کے کُھلے عام فروخت ہورہا ہے۔ نان کسٹم پیڈ اشیاء کا کاروبار کرنے والے متعدد تاجر ایسے ہیں، جو متعلقہ محکموں کی مبینہ ملی بھگت سے نان کسٹم پیڈ اشیاء ایک بار کسٹم کی نیلامی سے خرید لیتے ہیں اور ان کاغذات کی بنیاد پر کئی ماہ یا سال تک اسمگل شدہ سامان لاتے ہیں۔
اس طرح بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ کسٹم کے حوالے سے سکھر کا ایک واقعہ سوشل میڈیا کی زینت بنا، جس میں سکھر کے اہم کاروبای مرکز میں فروری کے مہینے میں ٹرانسپورٹ کے ذریعے ایک دکاندار نے جیولری کا مال منگوایا، جس کی مالیت کا تو اندازہ نہیں ہوسکا، لیکن جو مبینہ لین دین کی باتیں سامنے آئیں، تو کئی لاکھ سے شروع ہوکر ایک لاکھ پر ختم ہوئیں۔
دوکان دار کا کہنا تھا کہ اس کا سامان کسٹم پیڈ ہے اور کاغذات موجود ہیں، تو پھر اس کے خلاف کارروائی کیوں کی گئی اور پھر مبینہ مک مکا کے بعد سب کچھ ٹھیک کیسے ہوگیا؟ رقم کا مبینہ لین دین اس بات کا ثبوت ہے کہ کاغذات میں گڑ بڑ ہے، اگر نہیں تو مک مکا کیوں کیا گیا؟ بعضں صنعت کاروں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سکھر کسٹم ہاوس اور دیگر متعلقہ محکموں کی اس حوالے سے بہت زیادہ اہمیت ہے کہ بالائی علاقوں بلوچستان کراچی ، پنجاب سے آنے اور جانے والی تمام ٹرانسپورٹ، جن میں مسافر گاڑیاں، ٹرینیں اور ہر طرح کی روڈ ٹرانسپورٹ کے جو بھی روٹ ہیں، وہ تمام کسٹم سکھر اور اسمگلنگ کی روک تھام کے دیگر محکموں کی حدود میں آتے ہیں، جن کے دفاتر سکھر میں ہیں۔
اتنی بڑی حدود والے علاقے سکھر میں تو پورا کسٹم کلکٹریٹ ہونا چاہیے، کیوں کہ کسٹم کلکٹریٹ حیدرآباد میں ہے، جہاں صرف ڈرائی پورٹ ہے، جب کہ اگر سکھر جیسے سندھ کے اہم ترین شہر میں کسٹم کا کلکٹریٹ ہونا چاہیے اگر سکھر میں کسٹم کلکٹریٹ قائم نہیں ہوسکتا، تو کم ازکم کسٹم اور کسٹم انٹیلیجنس میں ڈپٹی کلکٹر رینک کا افسر تو یہاں تعینات ہوسکتا ہے، تاکہ ان اہم محکموں کی کارکردگی میں شاید کچھ بہتری لائی جاسکے۔
جب کہ محکمہ کسٹم میں متعدد ایسے افسر بھی موجود ہیں، جو سالوں میں نہیں مہینوں میں ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ اسمگلنگ کی روک کو یقینی بنا کر قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں نقصان سے بچا کر فائدہ پہنچا سکتے ہیں، جس کی مثال سکھر میں ہی موجود ہے کہ محکمہ کسٹم میں ستمبر 2019 میں سکھر میں تعینات ہونے والے ڈپٹی کلکٹر کسٹم ڈاکٹر عمران رسول نے اپنی 6 ماہ کی تعیناتی کے دوران کسٹم کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے اور کام یاب کارروائیاں کرتے ہوئے ایک ارب روپے سے زائد کے کیسسز بنائے اور 20 کڑور روپے کی ممنوعہ اشیاء کو نظر آتش کیا گیا اور اس مختصر عرصے میں جو کام یاب کارروائیاں سامنے آئیں، وہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آئیں، لیکن گزشتہ سال مارچ میں نامعلوم وجوہ کی بناء پر ان کا اچانک صرف چھ ماہ بعد ہی تبادلہ کردیا گیا؟ اس وقت سکھر کی مارکیٹوں میں اسمگل شدہ مصنوعات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں ، لیکن متعلقہ محکمے کوئی کارروائی کرتے دکھائی نہیں دیتے، محکمہ کسٹم اور کسٹم انٹیلی جنس کی مسلسل خاموشی کے باعث اسمگلنگ کی روک تھام کے بہ جائے اس کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔
سکھر کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی، کاروباری اور ٹرانسپورٹر حلقوں نے وزیراعظم عمران خان اور چئیرمین ایف۔ بی۔ آر، کلکٹر کسٹم سمیت دیگر متعلقہ افسران سے مطالبہ کیا ہے کہ سکھر میں کسٹم اور متعلقہ محکموں کی ناقص کارکردگی کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے، کیوں کہ سکھر کے متعلقہ حکام کو سب کچھ نظر آتا ہے، لیکن وہ کارروائی کیوں نہیں کرتے، یہی کسٹم کے بالا حکام معلوم کریں اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں ، تاکہ ملکی خزانے کو ٹیکس کی مد میں ہر سال خطیر رقم کے نقصان سے بچایا جاسکے۔