آج کی کائنات ماضی کی کائنات سے مختلف ہے اور ماہرین فلکیات کا دعویٰ ہے کہ مستقبل کی کائنات اس سے بھی مختلف ہوگی ۔کائنات کا تیزی سے پھیلائو یہ بتا رہا ہے کہ یہ کائنات کبھی ایک نکتے میں سمٹی ہوئی تھی ۔اس ایک نکتے سے اس کا پھیلائو شروع ہوا اور پھر لامتنا ہی سفر شروع ہوگیا ۔بگ بینگ کے ساتھ ہی توانائی ،وقت خلا اور پھر ذرات حتٰی کے مادّے کاآغاز ہوا ۔بگ بینگ سے قبل کیا تھا ؟ ماہرین فلکیات اس حوالے سے اندازے تو لگا رہے ہیں ،مگر حتمی رائے دینا آسان نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بگ بینگ سے قبل نہ زماں تھا اور نہ ہی مکاں ،تاہم اس دھماکے کے بعد ثانیے کے ایک اربویں حصے میں کیا کچھ ہوا ؟اس بابت کسی حد تک ٹھوس بات کی جاسکتی ہے ۔ کائنات کی ابتدا سے متعلق اب تک کا سب سے مسلمہ نظریہ 'بگ بینگ تھیوری ہے۔ یعنی یہ کائنات ایک دھماکے کے ذریعے وجود میں آئی اور تب سے اب تک پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ بگ بینگ کے ساتھ ہی کائناتی نظم کی ضامن چار بنیادی قوتیں تجاذب، الیکٹرومیگنٹزم، کمزور قوت اور طاقت ور قوت، ایک ایک کر کے خود سے الگ ہوئیں۔
ایک مدت تک انسان کی نگاہ میں اس کی اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے ہی کل کائنات تھی، تاہم پچھلی صدی میں یہ بات واضح ہوئی کہ کائنات ملکی وے سمیت چھوٹی بڑی اربوں کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بگ بینگ کے بعد ابتدا میں تجاذبی قوت کے سبب کمیت مختلف مقامات پر مرتکز ہوئی، جس کی بنا پر ستارے بنے، تاہم یہ ستارے بہت بڑے بڑے تھے۔ کوئی ستارہ جتنا بڑا ہو گا، اس کے خاتمے کی رفتار بھی اتنی ہی تیز ہو گی۔ یہ ابتدا ستارے سپر نووا دھماکوں کے ذریعے پھٹے اور اس طرح کہکشائیں وجود میں آتی چلیں گئیں۔
سائنسدانوں کے مطابق اس وقت کائنات میں دو سو ارب سے زائد کہکشائیں موجود ہیں، جو ایک دوسرے سے دور ہٹتی جا رہی ہیں۔ کہکشاؤں کی ایک دوسرے سے دور ہٹنے کی رفتار اور اسراع سے متعلق جانچ کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، جو قریب آتی آواز اور دور جاتی آواز کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ یعنی طول موج کا فرق۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کہکشائیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں، بلکہ ان کی ایک دوسرے سے دور جانے کی رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے، یعنی ان کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین فلکیات یہ سمجھتے ہیں کہ اصل میں یہ رفتار کہکشاؤں کی نہیں بلکہ کہکشاؤں کے درمیان موجود خلا کے پھیلنے کی ہے۔
آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات میں کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے یا اس سے زائد رفتار سے سفر نہیں کر سکتی، تاہم یہ نظریہ خلا کے پھیلاؤ پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دور ہوتی کہکشائیں، مستقبل میں روشنی کی رفتار سے سفر شروع کر دیں گی اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو ہم انہیں دیکھ نہیں پائیں گے۔ان کہکشاؤں کے روشنی کی رفتار سے دور ہٹنے کے بعد انسان کے لیے کل کائنات فقط وہ کہکشاں رہ جائے گی، جس میں وہ موجود ہو گا۔
ایسی صورت حال میں بگ بینگ نظریے کے آج موجود شواہد بھی ختم ہو جائیں گے، یعنی نہ ہمیں کہکشائیں دکھائی دے رہی ہوں گی، نہ ہی ان کے درمیان بڑھتا فاصلہ ماپا جا سکے گا اور نہ ہی ان کہکشاؤں کے درمیان اس بڑھتے فاصلے کی بنا پر بگ بینگ کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی میں بھی ایسا کچھ ہو چکا ہے ،جس نے بگ بینگ یا اس سے قبل کے حالات کے سراغ مٹا دیے ہوں؟ اس سوال کا جواب شواہد کی روشنی میں شاید کبھی نہ دیا جا سکے، کیوں کہ ان مٹ جانے والے شواہد کی بات فقط اندازے ہی لگائے جا سکیں گے۔
اس بابت سائنسدان طویل عر صے تک اس بات پر گفت وشنید کرتے رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر جس طرح کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، اسی طرح یہ ایک روز دوبارہ بگ کرنچ یا عظیم سکڑاؤ کی صورت میں دوبارہ بگ بینگ ہی کے مقام کی جانب لوٹے، تاہم کچھ سائنس دانوںکا اس نظریے سے مخالفت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ کائنات لامتناہی حد تک پھیلتی چلی جائے گی اور اس کا حتمی نکتہ توانائی کی کمی اور بلا آخر مکمل سیاہی اور عظیم انجماد کی صورت میں نکلے گا۔ یعنی ایک ایسا وقت جب تمام سورج، تمام ستارے بجھ چکے ہوں گے اور کائنات میں زندگی کی کوئی حدت باقی نہیں رہے گی۔ماہرین فلکیات اس نظر یے پر مزید غور کررہے ہیں اس کے بعدہی اس حوالے سے کوئی حتمٰی بات کہی نہیں جاسکتی ہے ۔