• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے معاشی و معاشرتی نظام میں بہتری لانے اور گڈ گورننس کے لئے وزیراعظم عمران خان اپنی ٹیم کی فیلڈنگ پوزیشن مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ تبدیلی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی جگہ حماد اظہر کی تعیناتی ہے جن کے پاس فی الحال صنعت و پیداوار کی وزارت کا اضافی چارج بھی رہے گا۔ وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز کے مطابق حفیظ شیخ کو روز افروز مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے لیکن کچھ اور وجوہات بھی ہیں جو ان کی سبکدوشی کا سبب بنیں۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے منتخب رکن نہیں تھے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر بننے کے لئے ان کا منتخب ہونا ضروری تھا۔ انہوں نے سینٹ کا الیکشن لڑا مگر ہار گئے۔ پھر معیشت کے محاذ پر ان کی کارکردگی سے عمران خان مطمئن نہیں تھے اور وفاقی کابینہ کے سینئر ارکان کو بھی ان کے بارے میں تحفظات تھے۔ بلاشبہ وہ ایک تجربہ کار سردوگرم چنیدہ ماہر اقتصادیات ہیں جو پیپلزپارٹی کے دور میں بھی اس منصب پر فائز رہے مگر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی روک تھام نہ کرسکے جس نے عوام خصوصاً غریب اور متوسط طبقے کو بے حال کررکھا ہے۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے حماد اظہر کی سربراہی میں جو معاشی ٹیم بنے گی وہ عمران خان کے وژن کو لے گر آگے چلے گی اور غریب عوام کو ریلیف فراہم کرے گی۔ حماد اظہر ایک تو منتخب عوامی نمائندہ ہیں اور وزیراعظم ٹیکنوکریٹس کی جگہ بتدریج منتخب نمائندوں کو اہم ذمہ داریاں سونپنا چاہتے ہیں۔ دوسرے، وہ نسبتاً جوان آدمی ہیں اور مضبوط سیاسی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ مثبت سیاسی سوچ کے ساتھ معاشی فیصلے کریں گے جو ملک اور ان کی پارٹی کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔ وزیراعظم کو ان کے قریبی رفقا بھی ٹیکنوکریٹس کی جگہ پارٹی کے منتخب لوگوں کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے مشورے دے رہے تھے۔ اس وقت وزیراعظم کے 15معاونین خصوصی اور 5مشیر بنیادی طور پر ٹیکنوکریٹس ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ میں مزید تبدیلیوں کے لئے بھی اپنے سینئر رفقا سے مشاورت مکمل کرلی ہے اور توقع ہے کہ توانائی، آبی وسائل، اطلاعات اور فوڈ سیکورٹی کے شعبوں میں بھی ردوبدل کیا جائے گا تاکہ انہیں مزید مؤثر بنایا جاسکے۔ جمعرات کو کابینہ کا جو اجلاس متوقع ہے امکان ہے کہ اس میں وزراء کی نئی ٹیم سامنے آئے گی جس میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کورونا وائرس اس وقت ملک کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں اور معیشت کی سمت درست ہونے کے دعوؤں کے باوجود اس کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیا اور وزیر خزانہ کو تبدیل کیا وہ اپنی معاشی ٹیم میں نئی جان پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ اصلاح احوال کی صورت پیدا کی جاسکے۔ لیکن تجزیہ کاروں اور سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ جو حکومت اپنی نصف سے زیادہ مدت میں کچھ نہ کرسکی وہ باقی ماندہ دوسال میں کیا کرے گی؟ لگتا ہے اب تک جو ہوا وہی ہوتا رہے گا اور عوام کو مطمئن کرنے کے لئے چہرے تبدیل کئے جاتے رہیں گے۔ عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان اقتصادی ترقی میں بنگلہ دیش جیسے ملکوں سے بھی پیچھے رہ گیا ہے اور حکومت کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے جسے بہتر بنانے کے لئے اگلے دو سال میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ وہ جس تبدیلی کا ایجنڈا لے کر برسراقتدارآئی تھی وہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ اصلاحات لانے کی خواہش ضرور ہوگی مگر عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اربوں ڈالر کے قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت اور آئی ایم ایف کا دباؤ ایسا کرنے دے گا؟

تازہ ترین