• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
علامہ اقبال کے مندرجہ بالا اشعار مجھے ٹی وی پر میاں نواز شریف کی تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کی تقریب حلف برداری کے موقع پر مولانا فضل الرحمن، شیخ رشید، جاوید ہاشمی کو میاں صاحب کے ساتھ بغلگیر ہوتے ہوئے دیکھ کر اچانک یاد آئے۔ میاں صاحب نے اپنے پہلے ہی خطاب میں کہاکہ اب وہ عوام کو نہ تو کوئی سہانے خواب دکھائیں گے عوام کو اصل معاملات سے باخبر ہونا چاہیئے۔ معیشت ناقابل بیان حد تک خراب ہے۔ میں کسی خیالی جنت کا نقشہ پیش نہیں کروں گا اس کے ساتھ ہی انہوں نے اقربا پروری اور بے جان نوازشات کے خاتمے کا اعلان کیا اور تقرریاں میرٹ پر کرنے کی بات کی۔ گوادر سے کاشغر تک ریلوے لائن بنانے کی بات کی۔ اس پر علامہ اقبال کا شعر ہے #
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاکِ کاشغر
ن لیگ کے متوالوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔ جیو نے رائے ونڈ اور ملتان کے بھنگڑوں کے مناظر دکھائے کارکنوں نے شیر کے ماڈل بھی اٹھا رکھے تھے۔ دوسری طرف ٹی وی پر لوڈ شیڈنگ کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ 14 سے 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور گرمی سے بے حال لوگ بیزار دکھائی دے رہے تھے ، مسائل بے انتہا ہیں اور وسائل محدود، دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک! میاں صاحب کو ملک کے 27 ویں وزیراعظم منتخب ہونے پرمبارک ہو۔ عوام نے اس وقت انہیں اپنے تمام دکھوں کا مداوا سمجھ کر ووٹ دیا ہے اور منتخب کیا ہے میری دعا ہے کہ میاں صاحب اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں اور جو وعدے انہوں نے عوام سے انتخابی مہم کے دوران کئے تھے انہیں پورا کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن نے ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ہے اور قومی ادارے یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ میں ان حالات میں بھی بالکل مایوس نہیں ہوں اور پر امید ہوں کہ ہماری عوام بے حد محنت کش ہے اگر ملک کی باگ ڈور صحیح ہاتھوں میں ہو تو یہ عوام ملک کی معیشت کو سہارا دیکر ترقی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ آپ یاد کریں کشمیر میں زلزلے کے وقت پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی اور ملکی لوگوں کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا کر زلزلہ زدگان کی خدمت کی اور اس قدرتی آفت کا مقابلہ کیا قوم اب اگر ایک مرتبہ پھر اسی جذبے سے ملک کی معیشت کو سنوارنے کے لئے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر کام کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس گرداب سے نہ نکل سکیں۔ دنیا کی کامیاب اور ترقی یافتہ قوموں نے اپنے مشکل اوقات میں اسی طرح کام کیا ہے اور آج وہ ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں۔
ہم بھی ایک زندہ قوم کے افراد ہیں اور ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے وہ الگ بات ہے کہ جب ہم بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو ہمارے گرین پاسپورٹ کو دیکھ کر امیگریشن افسر پہلے تو ہمیں اوپر سے نیچے تک عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں پھر پاسپورٹ پر لگی تصویر کو دیکھتے ہیں، پھر دوبارہ ہمارا چہرہ دیکھ کر پاسپورٹ کے اوراق کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور پھر حسب توفیق سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ اپنا بیرون ملک امیج بھی ٹھیک کرنا ہوگا اور اپنے گرین پاسپورٹ کی عزت، قدر و منزلت اپنے اقدار اور کردار سے بڑھانی ہوگی۔ فی الحال تو حالت کافی پریشان کن ہے، میں امریکہ سے واپسی پر ان دنوں لندن میں ہوں۔ یہاں موسم خاصا خوشگوار ہے شام کو سردی ہو جاتی ہے گزشتہ تین دن سے سورج نکل رہا ہے یہاں کے لوگ سورج نکلنے پر بہت خوش ہوتے ہیں اور گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پاکستان سے کافی لوگ ان دنوں لندن آئے ہوئے ہیں اور ہماری نجی ملاقاتوں میں پاکستان کی سیاست اور معیشت ہی زیر بحث رہتی ہے۔ یہاں کافی لوگ نواز شریف کے ساتھ ہیں ایک بہت بڑا طبقہ خصوصی طور پر نوجوان لوگ عمران خان کے حامی ہیں اور ان کا کہنا یہ کہ اگر الیکشن شفاف ہوتے تو عمران خان کو مزید سیٹیں ملتیں۔ یہ بحث یہاں ہر وقت نواز شریف اور عمران خان کے حامیوں میں ہوتی رہتی ہے اور کوئی بھی ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ ایک محفل میں پیپلزپارٹی کے لوگ بھی ملے اور وہ سندھ میں اپنی پارٹی کی کامیابی پر بہت خوش تھے اوراس بات سے اور زیادہ خوش تھے کہ اس دفعہ انہوں نے اکیلے ہی سندھ کی حکومت بنائی ہے۔ بہر حال انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے گزر گیا، آپ کو یاد ہوگا کہ انتخابات سے قبل بے شمار لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے تھے کہ انتخابات نہیں ہوں گے لیکن میں اپنے کالموں میں بار بار لکھ رہا تھا کہ چونکہ اداکارہ میرا کی والدہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اس لئے انتخابات ضرور ہوں گے اور آپ دیکھیں میری بات سچ ثابت ہو گئی۔ اب مجھے جمہوری معاملات آگے چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دیکھئے ڈرون حملوں کا مسئلہ کس طرح حل ہوتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف نے ڈرون حملوں کو روک دیا اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پا لیا تو وہ ملک کے مقبول ترین وزیراعظم بن جائیں گے اور جس طرح ایٹمی دھماکے کے بعد لوگوں نے ان کی پذیرائی کی تھی ویسا ہی منظر دوبارہ دیکھنے میں آئے گا۔ اگر ان دو دائمی امراض یعنی ڈرون حملے اور لوڈ شیڈنگ پر قابو نہ پایا گیا تو پھر عوام میں مایوسی پھیلے گی۔ کراچی کے امن و امان کا مسئلہ بھی توجہ طلب ہے۔ کراچی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، یہاں اگر امن و امان خراب ہو تو پورے ملک کی معیشت پر اثر پڑتا ہے میاں صاحب کو متحدہ کی قیادت کو اعتماد میں لیکر اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرنا چاہیئے ۔
آخر میں حسب حال غالب کا شعر پیش کرتا ہوں
گِریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے! کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
تازہ ترین