پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے محترمہ مریم نواز کے ’’سلیکٹڈ‘‘ بننے کےطعنے کے جواب میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی اور ان کا خاندان تین نسلوں سے جمہوریت اور عوامی حاکمیت کے لئے جو قربانیاں دے رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان کی رگوں میں ’’سلیکٹڈ‘‘ بننے والا خون نہیں۔
موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لئے لائحہ عمل پر تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جمہوری کاز پر نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو، شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادتوں سمیت پارٹی کے ہزاروں کارکنوں نے جس طرح پھانسیوں، جلاوطنیوں، کوڑوں اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا ہے اس کی مثال کوئی دوسری پارٹی پیش نہیں کر سکتی۔
موجودہ سیاسی رہنمائوں میں بھی سب سے زیادہ جیل کاٹنے والے آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے 14سال جیل میں گزارے جہاں ان کی زبان کاٹنے کی کوشش بھی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی کی تشکیل سے لے کر ہر طرح کی انتخابی دھاندلی اور بے اصولی کو ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے نام پر جائز قرار دیا گیا۔
پہلے 85ء کے غیرجماعتی انتخابات کے ذریعے جنرل ضیا کی حکومت نے نہ صرف مذہبی فرقہ واریت اور ذات برادری کو فروغ دیا بلکہ ایک سازش کے ذریعے پیپلز پارٹی کے سب سے مضبوط گڑھ پنجاب کو بھی اس سے چھین لیا اور وہاں اپنی کٹھ پتلیوں کی حکومت قائم کر دی۔ یوں ایک ملک گیر پارٹی کو جو وفاق کی وحدت اور اتحاد کی ضامن تھی، ایک صوبے تک محدود کرنے کی بنیادیں رکھ دی گئیں۔
آج میاں نواز شریف عوامی حاکمیت کے حق اور اداروں کی مداخلت ِ بے جا کے جس بیانیے کا ذکر کر رہے ہیں یہ وہی بیانیہ ہے جس کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جانوں کی قربانی دی۔
لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ میاں صاحب نے اس وقت انہی غیرجمہوری طاقتوں کے آلۂ کار کے طور پر پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں کیں، انہوں نے نہ صرف جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ آج وہ خود اور ان کی پارٹی بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
90ء کے عشرے میں جب پاکستانی سیاست جنرل ضیا کی موت کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی شکل میں پاکستان کو ایک نئی اور نوجوان قیادت نصیب ہوئی، اس وقت اگر میاں صاحب پیپلز پارٹی کے خلاف بے رحمانہ اور انتقامی رویہ اختیار نہ کرتے تو شاید آج صورتِ حال بالکل مختلف ہوتی اور غیرجمہوری طاقتوں کی پاکستانی سیاست پر گرفت ڈھیلی ہو چکی ہوتی۔اب اگر میاں صاحب اپنے تجربات اور غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں تو ایسا نہیں کہ ان کی حمایت نہ کی جائے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی جب پیپلز پارٹی کو موقع ملا، اس نے ’’عوامی حاکمیت‘‘ کے اپنے مقصد سے روگردانی نہیں کی۔
محترمہ کی شہادت کے بعد نواز شریف 2008کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے لیکن آصف علی زرداری نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا اور انتخابات کے بعد جمہوریت کے استحکام کے لئے کھلے دل کے ساتھ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنائی لیکن میاں صاحب چند ماہ بعد خود ہی اس اتحاد سے علیحدہ ہو گئے۔ صرف یہی نہیں وہ میمو گیٹ اسکینڈل میں جمہوری حکومت کے خلاف غیر جمہوری طاقتوں کے ساتھ مل گئے۔ پاکستان کے آمریت زدہ معاشرے میں یہ پہلی بار ہوا کہ ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ پریس مکمل طور پر آزاد تھا۔ اور یہ بھی پاکستان میں پہلی بار ہوا کہ برسرِ اقتدار حکومت نے انتخابات ہارنے کے بعد جمہوری روایات کے مطابق اقتدار پُرامن طریقے سے نئی حکومت کو منتقل کر دیا۔
یہ آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر اپنے بے پناہ صدارتی اختیارات 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیے اور صوبوں کو حقیقی خودمختاری دے کر وفاقِ پاکستان کو مستحکم کر دیا۔ طاقتور حلقوں نے ان کا یہ ’’جرم‘‘ ابھی تک معاف نہیں کیا۔
عمران حکومت کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا، اس کے لئے ’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ پہلی مرتبہ بلاول بھٹو زرداری نے ہی استعمال کیا اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے پی ڈی ایم کا قیام بھی انہی کی کوششوں کا ثمر ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے درمیان نااہل حکومت کو تبدیل کرنے کی حکمت ِ عملی کے بارے میں اختلافِ رائے ایک جمہوری عمل ہے لیکن 85کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کے نقصانات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی اسمبلیوں کے اندر رہ کر جمہوری طریقوں سے اس حکومت کو تبدیل کرنے کی حکمت ِ عملی نے عمران اینڈ کمپنی کے اندرونی تضادات اور کمزوریوں کو جس طرح بے نقاب کیا ہے وہ صرف جلسے اور جلوسوں سے ممکن نہیں تھا کیونکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ استعفوں جیسے ’’اپنے ہاتھ کاٹ کر‘‘ دینے کے عمل کے بعد وہ طاقتیں ضمنی انتخابات نہیں کروائیں گی جن کی بقا اس نظام کے تسلسل میں ہے۔
یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ الیکشن میں فتح نے پورے نظام میں دراڑیں ڈال دی ہیں البتہ پارٹی کے خیر خواہ اور جمہوریت پسندوں کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ گیلانی صاحب کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی کا اگر سہارا نہ لیا جاتا تو بہتر تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور غیرجمہوری طاقتوں کو اپنی آئینی حدود میں رکھنے کے لئے پی ڈی ایم کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے پیپلز پارٹی اپنی پچاس سالہ جمہوری جدوجہد پر کوئی حرف نہیں آنے دے گی۔