• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو فارغ کرنے کا منصوبہ ایک مرتبہ پھر ناکام یا شاید ملتوی ہو گیاجس کی زیادہ خوشی یقیناً پوزیشن کو ہوئی ہو گی۔ عثمان بزدار کو عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد دو تین وجوہات کی بنا پر اس عہدے پر فائز کیا تھا جس میں جنوبی پنجاب سے تعلق ، طبیعت کی سادگی، بڑے سیاسی خانوادے، برادری یا گروپ کیساتھ تعلق نہ ہونے کی وجہ سے تابع فرمائی اور وفاداری کی امید وغیرہ شامل تھے۔ عثمان بزدار نے اپنے قائد کیساتھ وفاداری تو نبھائی مگر سب سے بڑے صوبے کے عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف عوام بلکہ پی ٹی آئی کے کارکنان بھی مایوسی کا شکار ہونے لگے۔ پنجاب کی کابینہ کے اہم وزراء نے عثمان بزدارکو وزیر اعلیٰ کے طور پر پہلے دن سے قبول نہیں کیا اور خاموشی سے ایک طرف ہو گئے جبکہ سفارشی وزراءکی اکثریت نااہل یا ناتجربہ کار تھی جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کی کار کردگی اور گورننس پر سوالات اٹھنے لگے۔ پنجاب کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے بیورو کریسی میں مسلسل تبدیلیاں کی گئیں اور سابق وزیر اعلیٰ کے قریبی بعض اعلیٰ افسران کو بھی اہم پوسٹوں پر لگانے کا تجربہ کیا گیا مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم میں مکمل ہم آہنگی نہ تھی جس کا فائدہ جہاندیدہ افسروں نے اٹھایا اور مختلف ذرائع اور چینلز استعمال کر کے پر کشش اور اہم سیٹوں پر براجمان ہو گئے یوں میرٹ تو نظر انداز ہوا بلکہ تبدیلی سرکار کا بیانیہ بھی متاثر ہوا۔

گزشتہ دور میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے جن کی عمدہ کارکردگی اور میرٹ کو ترجیح دینے کی پالیسی 2018میں پی ٹی آئی کی لینڈ سلائیڈ وکٹری کی وجہ بنی تھی۔ تاہم اب دونوں صوبوں کی حکومتوں کی کمزور کارکردگی کا خمیازہ عمران خان اور مرکزی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں اکثریت کے باوجود حکومتی اُمیدوار حفیظ شیخ کی شکست اور مختلف صوبوں میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی امیدواروں کی مسلسل شکست اِس بات کی غمازی کرتی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کا گراف نیچے جا رہا ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ دس بارہ کروڑ آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب کے حوالے سے کوئی مستقل پالیسی یا لائحہ عمل وفاقی حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آ رہا صرف ایک آدھ وفاقی مشیر کو کچھ اختیارات دئے کر پنجاب حکومت کے ساتھ بٹھا دیا جا تا ہے جس سے صوبے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیڈ گورننس اور کرپشن جیسے مسائل ختم نہیں ہوتے۔ صحت، تعلیم ، ایکسائز، ریو ینیو، زراعت، ہوم اور جنرل ایڈمنسٹریشن کے محکمے جنکا تعلق براہ راست عوام کیساتھ ہوتا ہے عوام کی توقعات پر پوار اترنے میں ناکام رہے ہیں۔

صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے ملنے والے جھٹکے کے بعد اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اسے اطمینان ہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب میں نااہل ٹیم مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو کم نہیں بلکہ زیادہ کر دے گی دوسری طرف پیپلز پارٹی کے زیرک سربراہ آصف علی زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب سے قابل ذکرنشستیں حاصل کئے بغیر ان کے بیٹے بلاول زرداری کے وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے دونوں نے عملی کوششوں کا آغاز جنوبی پنجاب سے کر دیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان ملک اور بیرون ملک بسنے والے کروڑوں لوگوں کی دعائوں اور ووٹوں سے اقتدار میں آئے ‘ انہیں چاہئےکہ گومگو کی حالت سے باہر نکلیں اور سب سے بڑے صوبے میں حالات بہتر کرنے کیلئے ایک روڈ میپ تیار کریں ، تبدیلی ناگزیر ہے تو کر گزریں ، نااہل اور کرپٹ وزراء اور افسران کو فوراً تبدیل کریں وگرنہ بہت دیر ہو جائے گی اور پہلا نتیجہ بہت جلد بلدیاتی الیکشن میں سامنے آجائے گا۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین