• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ہم ناکام ریاست بننے جا رہے ہیں؟ یہ سوال 1990کے عشرے کی ابتدا سے ہی پاکستان کے بارے میں امریکی اور مغربی تھنک ٹینکس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس میں بین السطور کیا جاتا رہاہے۔ اس وقت ایسی صورت حال تھی یا نہیں لیکن اس سوال سے کچھ عالمی طاقتوں کی پاکستان کے بارے میں نیت کا پتہ چل جاتا ہے۔ آج جو حالات ہیں، وہ انتہائی تشویش ناک ہیں کیونکہ پاکستان کے ماہرینِ اقتصادیات یہ کہہ رہے ہیں کہ ملکی معیشت منصوبہ بندی کے تحت تباہ کی گئی ہے اور اب وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیراعظم عمران خان نے خود ہٹا کر یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ان سے معیشت سنبھل نہیں سکی جس ملک کی معیشت تباہ ہو جائے، اس کا حشر سوویت یونین جیسا ہوتا ہے۔

زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ معاشی تباہی کے عمل کو روکنے کےلئے وزیراعظم کی طرف سے جو اکنامک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی ہے اس میں نجی شبہ سے 13اراکین شامل ہیں، اس کونسل کے ممکنہ کنوینر اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی وہ ساری باتیں کہہ دی ہیں، جو اعلیٰ حکومتی عہدہ لینے والے کسی شخص کو مصلحتاً نہیں کہنی چاہئیں۔ جیو ٹی وی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے ملکی معیشت کے بارے میں حقائق سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کو درست کرنے کے لئے جو تجاویز دی ہیں، ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں وہ بری الذمہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ شوکت ترین جیسے ماہر اقتصادیات کا یہ کہنا ہے کہ یہ پتہ نہیں چل رہاکہمعیشت کس سمت جارہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنا گھر ٹھیک کرے۔ ہم نے ڈھائی سال میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کیا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں غلطی کی گئی۔ صرف ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہو گا۔ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود بڑھانے سے معیشت کا بیڑا غرق ہوا۔ انہوںنے معیشت کے حوالے سے نیب کے کردار کا بھی تذکرہ کیا۔ بین السطور شوکت ترین نے ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹر اشفاق حسین اور ڈاکٹر قیصر بنگالی جیسے ماہرین معاشیات کی ان آراء سے اتفاق کیا ہے کہ پاکستانی معیشت ناکام ہو چکی ہے۔ اس کے اسباب بھی انہو ں نے بتا دیئے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیاں پاکستان کو یہاں تک لے آئی ہیں، یہ اور بات ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق ابھی ان کے خیالات سامنے آنا باقی ہیں۔ وہ معیشت کو درست کرنے کے لئےجو تجاویز دے رہے ہیں، ان پر بھی غور کرنا چاہئے۔

شوکت ترین یہ تجاویز دے رہے ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنا گھر ٹھیک کرے اور کپتان کومضبوط ہونا پڑے گا، ورنہ کشتی آگے نہیں بڑھے گی۔ ان تجاویز پر عمل درآمد بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے اسباب کا تذکرہ خود شوکت ترین نے معیشت کی صورت حال کے تناظر میں کر دیا ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال میں اپنا گھر ٹھیک نہ کرنے کی بات کرکے شوکت ترین نے بنیادی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے ڈھائی برسوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کو جو مزاحمت ماضی کی حکومتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے دی تھی، وہ شاید موجودہ حکومت نہ دے سکی۔ اگرچہ شوکت ترین نے اس کی وجوہ بیان نہیں کی ہیں لیکن میرے خیال میں انہوں نے بات کر بھی دی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت اب تک آئی ایم ایف کو مزاحمت نہیں دے سکی تو پھر شوکت ترین ہی بتا سکتے ہیں کہ کپتان اگلے ڈھائی سالوں میں کیسے مضبوط ہو سکتے ہیں کیونکہ اس حکومت کوقائم رکھنے کے اسباب تو تبدیل نہیں ہوں گے۔ جب سیاسی اسباب تبدیل نہیں ہوں گے تو پھر گھر کیسے ٹھیک ہو گا؟ گھر ٹھیک تب ہو گا، جب گھر والے گھر کے لئے سوچیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں گھر کےلئے سوچنے والے پاکستانی قوم پرست عبرت کا نشان بنا دیئے گئے، جس نے پاکستانی قوم پرستی کی پالیسی اختیار کی، وہ عتاب کا شکار ہوا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ قومی سرمایہ داری کو منصوبہ بندی کے تحت ابھرنے نہیں دیا گیا۔ احتساب نے قومی سیاستدان کیساتھ ساتھ قومی سرمایہ دار بھی پیدا نہیں ہونے دیئے۔ اسکے لئےنیب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی نشاندہی شوکت ترین بھی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ادارے بھی قوم پرستی کی سوچ پر نہیں چلنے دیئے جا رہے۔ صرف نیب ہی نہیں، سارے ادارے دانستہ یا نا دانستہ طور پر قوم پرستی والی پالیسی سے ہٹا دیئے گئے ہیں۔ سب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے، دہشت گرد اور ناکام ریاست کے خطرے سےبچنے کے لئے عالمی طاقتوں کے ایجنڈا پورا کرنےپر لگے ہوئے ہیں۔ قومی سیاست دان، قومی سرمایہ دار اور قومی ادارے اپنے جوہر میں وہ نہیں، جو ہونے چاہئیں۔ ملک میں سیاسی تحریک نہیں ہے۔ سیاسی ادارے کمزور ہیں۔ شوکت ترین حقائق تو ضرور بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں ناکام معیشت سے ملک کو نکالنا ہے اور عالمی طاقتوں کےپاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے کے ایجنڈے کو ناکام بنانا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، کیا ادارے ان کا ساتھ دیں گے، یہ اہم سوال ہے ؟

تازہ ترین