اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی کابینہ نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی از سر نو ڈھانچہ سازی کے منصوبے کی منظوری دی جس کے تحت اسے خود مختار بنانے کے ساتھ آڈیٹر جنرل کو انتظامی و مالیاتی اختیارات دیے جائیں گے، پلان میں آڈٹ پیراز کی تشریح کے مسئلے کو بھی حل کیا جائے گا، ان میں کچھ غیر اہم اور غیر ضروری نوعیت کی ہوتی ہیں۔
از سر نو ڈھانچہ سازی کا منصوبہ ڈاکٹر عشرت حسین کی زیر قیادت سول سروس اصلاحاتی کمیٹی نے تیار کیا ہے اور کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔ منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اے جی پی کے ادارے کو بہتر بنا کر اسے جدید، پیشہ ورانہ ادارہ بنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کیلئے انسانی وسائل، آٹومیشن اور کاروباری عوامل میں ڈیجیٹائزیشن متعارف کرانا ہوگی اور آڈٹ رپورٹس کی تیاری میں تیزی لانا ہوگی لیکن ساتھ ہی آڈیٹر اور آڈیٹی (جس کا آڈٹ کیا جا رہا ہے) کے درمیان رابطہ کم سے کم کرنا ہوگا اور اپنے کام کاج میں تیزی لانے کیلئے اے جی پی کو آپریشنل خود مختاری دینا ہوگی۔
اے جی پی کا ادارہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے رپورٹس کے ذریعے مینجمنٹ اور سرکاری وسائل کے استعمال پر پارلیمانی نگرانی کا حامی ہے۔ اے جی پی کی رپورٹس کو نیب، ایف آئی اے اور میڈیا والے اپنی تحقیقات اور خبروں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ فی الوقت اے جی پی اور وزارت خزانہ کا منسلک محکمہ ہے اور یہ صورتحال دیگر خود مختار آئینی اداروں کے برعکس ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اکائونٹس اور آڈٹ کو علیحدہ کرنے کی وجہ سے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آڈٹ کا عمل آزادانہ انداز سے مکمل کیا جائے۔
لہٰذا، کابینہ کو تجویز دی گئی تھی کہ اے جی پی کو ایک خود مختار ادارہ بنایا جائے اور آڈیٹر جنرل کو انتظامی و مالیاتی اختیارات دیے جائیں۔ یہ واضح کیا گیا تھا کہ اے جی پی کے ماتحت 32؍ فیلڈ آفسز ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں اور ان دفاتر میں حکومت کے تین شاخہ نظام کے تحت چار ہزار افسران و دیگر ملازمین پبلک آڈیٹرز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
یہ بتایا گیا کہ وسیع تر آپریشنل اور مالی خودمختاری کے نتیجے میں عوام کو خدمات کی فراہمی کے معاملے پر ٹرانزیکشنل آڈٹ میں تبدیلی لانے میں مدد ملے گی جس سے کام کاج بروقت مکمل ہوں گے، اخراجات کنٹرول میں آئیں گے اور انفرا اسٹرکچر منصوبوں، ریگولیٹری کارکردگی میں بہتری لانے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی اس مقصد کیلئے آڈٹ کے نئے طریقے متعارف کرانے میں مدد ملے گی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ اے جی پی میں افرادی قوت اس وقت آڈٹ پیراز کی تشریحات میں مصروف ہے اور ان میں سے کئی ایسی ہیں جو غیر ضروری اور غیر اہم نوعیت کی ہیں۔
غیر تربیت یافتہ احتساب افسران ان پیراز کو استعمال کرتے ہوئے اپنی انکوائریز اور انوسٹی گیشن کو آگے بڑھاتے ہیں اور ضابطے کی خامیوں کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور انہیں تصرف بے جا کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔
لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ آڈٹ کیلئے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ افرادی قوت کے ہنر اور مہارت کو مقصد کے حصول کیلئے بہتر انداز سے استعمال کیا جا سکے اور شفافیت کے ساتھ کفایت شعاری کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ سرکاری شعبے میں اچھی طرز حکمرانی لائی جا سکے۔
کابینہ نے جس منصوبے کی منظوری دی ہے اس مین ضروری تبدیلی کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں تاکہ اے جی پی میں افرادی قوت، انتظامی پالیسی اور طریقہ کار میں بہتری لائی جا سکے۔ اصلاحاتی پلان میں اس ضرورت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت آڈٹ اسٹاف کی مہارت اور استعداد میں اضافہ لایا جا سکتا ہے تاکہ انفارمیشن سسٹم آڈٹ، ڈیٹ آڈٹ، انرجی سیکٹر آڈٹ، فارنسک آڈٹ وغیرہ جیسے معاملات سلجھانے میں آسانی پیدا ہو سکے۔
کہا جاتا ہے کہ مخصوص (اسپیشلائزڈ) معاملات کے آڈٹ کیلئے بہترین تربیت یافتہ ماہرین کی ٹیم بنائی جائے گی۔ نئے منصوبے میں وسیع پیمانے پر آٹومیشن پراسیس، ریکارڈ، دستاویزات، ڈیٹا کو ڈیجیٹلائز کرنے اور آڈٹ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (اے ایم آئی ایس) لانے اور ساتھ ہی بزنس پراسیس ری انجینئرنگ متعارف کرانے کی بات کی گئی ہے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی اور محکمہ جاتی اکائونٹس کمیٹی کی معاونت کیلئے تکینیکی اسٹاف کو مضبوط بنانے، کام کا بوجھ کم کرنے اور آڈٹ کے عمل کو مکمل کرنے، قلیل وقت میں کام کاج نمٹانے اور سرکاری ادائیگیوں میں ہونے والی تاخیر کم کرنے جیسے معاملات بھی اے جی پی کی از سر نو ڈھانچہ سازی منصوبے کا حصہ ہیں۔