• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت سے تجارت اور امن کے خواہاں، ماحول سازگار بنایا جائے، شاہ محمود


کراچی (ٹی وی رپورٹ ) جیو نیوز کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘‘ میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کے استحکام کے بعد گروتھ کی طرف جانے کی کوشش کررہے ہیں، شوکت ترین پاکستانی معیشت کی اسٹرکچرل مشکلات سے پوری طرح واقف ہیں، پاکستان ہندوستان کے ساتھ تجارت اور امن چاہتا ہے لیکن پہلے سازگار ماحول بنایا جائے، پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے اصول دستخط شدہ ہیں ان پر (ن) لیگ عمل نہیں کررہی ہے، ہم استعفے دینے کیلئے تیار ہیں لیکن پی ڈی ایم میں استعفوں سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر اتفاق ہوا تھا، ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پی ڈی ایم کی 9جماعتیں لانگ مارچ اور استعفوں کا آپشن استعمال کرنے پر متفق تھیں،ہم ڈی تک پہنچ گئے تو پیپلز پارٹی نے ٹائم آؤٹ لے کر اس پوری موو کو ختم کردیا،احسن اقبال نے کہا کہ پیپلز پارٹی شوکاز کا جواب اور استعفے نہیں دیتی تو عملاً پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوجائے گی، میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کیلئے اپوزیشن سے خطرہ خود اس کی کارکردگی بن گئی ہے،پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ انتشار کا شکار ہے، شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں ریپ سے متعلق امریکی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مفروضہ غلط ہے کہ خواتین بھڑکانے والے لباس پہن کر یا رویہ اپنا کر ریپسٹ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ،ریپ کسی بھی جگہ، کسی بھی موقع پر اور کسی بھی وقت ہوسکتا ہے، سب سے محتاط خاتون بھی مکمل طور پر اس جرم سے محفوظ نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کل ٹی وی پر لوگوں کے براہ راست سوال سن کر ان کے جواب دیئے، وزیراعظم نے کل خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے اہم معاملہ پر بھی بات کی، وزیراعظم نے ریپ کیسز سے متعلق ایک چونکا دینے والا بیان دیا اور ایسے واقعات کو خواتین کے پردے سے جوڑ دیا، وزیراعظم عمران خان اگر پردے سے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے، اپنے نظریے کو عوام کے سامنے رکھ سکتے ہیں لیکن یہ تاثر نہیں دے سکتے کہ خواتین کے لباس کی وجہ سے ریپ کیسز ہوتے ہیں، یہ اشارہ بھی نہیں دے سکتے کہ ریپسٹ اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کرسکتے، وزیراعظم کی طرف سے یہ براہ راست victim blaming ہے جو صرف افسوسناک ہی نہیں خطرناک بھی ہے، ریپ یا جنسی زیادتی کا تعلق لباس یا پردے سے نہیں ہے بلکہ طاقت کے مظاہرے سے ہے، یہ معاملہ بنیادی طور پر شہوانیت کا نہیں بلکہ دوسرے شخص پر قابو پانے کا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب بھی جنگیں ہوئیں تو فاتح افواج نے خود کو طاقتور ثابت کرنے کیلئے مقبوضہ ملک کی خواتین سے جنسی زیادتی کی ، ریپ ، ریپسٹ اور متاثرہ شخص سے متعلق بہت سی ایسی باتیں ہیں جنہیں وسیع پیمانے پر درست تسلیم کیا جاتا ہے مگر وہ حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں، شاید وزیراعظم بھی ایسے مفروضوں کو درست مانتے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ دنیا کے تین ممالک میں ریپ سے متعلق فرضی داستان اور حقائق پر ریسرچز ہوئی ہیں، ان ریسرچز میں ریپسٹ اور متاثرہ لوگوں کے انٹرویوز کے ساتھ ماہرین نفسیات اور پراسیکیوشن کے تجزیے بھی شامل ہیں، امریکا کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی تحقیق کے مطابق ریپ جیسے جرم اور اس جرم میں متاثرہ شخص سے متعلق بہت سی فرضی داستانیں ہیں، اس میں پہلا مفروضہ یہ ہے کہ ریپ جوش اور جذبات کا جرم ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ ریپسٹ انتہائی غیرمعمولی شہوت میں مبتلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کنٹرول سے باہر ہوتا ہے مگر ماہرنفسیات نے یہ دریافت کیا ہے کہ ریپ کے زیادہ تر کیسوں میں جنسی خواہش کو کنٹرول نہیں کرپانے کا معاملہ نہیں دیکھا گیا بلکہ جنسی حملے کے پیچھے محرک اکثر دوسرے شخص پر قابو پانے یا اسے کنٹرول کرنے کی خواہش ہوتی ہے، ریپ بنیادی طور پر طاقت اور غصے کا اقدام ہوتا ہے، اس جرم میں جنسی پہلو بنیادی نہیں بلکہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی ادارے کی تحقیق کے مطابق ریپ سے متعلق دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ جو خواتین محتاط ہوتی ہیں ان کا ریپ نہیں ہوتا، یہ مفروضہ بھی غلط ہے، ریپ کسی بھی جگہ، کسی بھی موقع پر اور کسی بھی وقت ہوسکتا ہے، بیورو آف جسٹس اسٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار کے مطابق 35فیصد ریپ متاثرہ شخص کے گھر کے اندر یا قریب ہوتے ہیں، دفاتر اور اسکولوں میں بھی ریپ کے واقعات ہوئے ہیں، سب سے محتاط خاتون بھی مکمل طور پر اس جرم سے محفوظ نہیں ہے۔ امریکی ادارے کی تحقیق کے مطابق ایک مفروضہ یہ ہے کہ خواتین بھڑکانے والے لباس پہن کر یا رویہ اپنا کر ریپسٹ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ، یہ مفروضہ بھی غلط ہے۔

تازہ ترین