• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خبر پاکستانیوں کیلئے باعث تشویش ہے کہ ملک میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ ریڈ لسٹ میں شامل ممالک کے شہریوں پر برطانیہ آنے پر پابندی عائد ہے اور اب ریڈ لسٹ میں شامل ہونے کے بعد پاکستانیوں پر بھی 9 اپریل سے برطانیہ آمد پر پابندی عائد ہوگی۔ برطانوی حکومت کا موقف ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے اور بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پاکستان کو ’’ریڈ لسٹ ممالک‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم برطانوی شہریت یا اقامہ رکھنے والے پاکستانیوں کو برطانیہ پہنچنے پر 10 دن تک سرکاری طور پر منظور شدہ ہوٹل میں لازماً قرنطینہ میں رہنا ہوگا جس کے اخراجات بھی خود برداشت کرنا ہوں گے۔

یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر میں کورونا کی مثبت شرح 10 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے اور نئے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بروز سوموار دوران ملک بھر میں تقریباً 5 ہزار افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 5 فیصد سے زیادہ شرح خطرناک تصور کی جاتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت جہاں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے، برطانیہ کی ریڈ لسٹ میں شامل نہیں جو عالمی طاقتوں کی دہری پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ برطانیہ کی اس دہری پالیسی کے خلاف پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے برطانوی وزیر خارجہ کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں برطانوی حکومت کے اقدام کو پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔

ایسے میں جب دنیا کے ممالک اپنی آدھی آبادی کو ویکسین لگاچکے ہیں، پاکستان میں کورونا ویکسی نیشن کا عمل سست روی کا شکار ہے اور اس کی رفتار کچھوے کی رفتار سے زیادہ نہیں۔ چین سے امداد کے طور پر ملنے والی 10 لاکھ ویکسین جو 22 کروڑ کی آبادی کیلئے آٹے میں نمک کے برابر ہے، گزشتہ کئی ماہ میںاب تک صرف 8 لاکھ افراد کو لگائی گئی ہے۔ اس کے برعکس یو اے ای جیسے چھوٹے ملک میں یومیہ دو سے ڈھائی لاکھ لوگوں کو کورونا ویکسین لگائی جارہی ہے۔ حکومت صرف امداد میں ملنے والی ویکسین پر انحصار کررہی ہے اور ابھی تک ویکسین تیار کرنے والی کسی غیر ملکی کمپنی سے بڑی مقدار میں ویکسین کی خریداری کیلئے کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ویکسین پاکستان پہنچی ہے۔دوسری طرف کورونا ویکسین کی پرائیویٹ سیکٹر کیلئے حکومت کی کوئی واضح حکمت عملی نہ ہونے کے باعث گزشتہ دنوں سندھ ہائیکورٹ نے ایک نجی کمپنی کو کورونا ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں امپورٹ کرنے کی اجازت دی ہے اور کمپنی نے روسی ویکسین کی 25 ہزار خوراکیں امپورٹ کی ہیں جو 3 نجی اسپتالوں کو فراہم کی گئی ہیں اور یہ اسپتال 10268 روپے میں ویکسین لگارہے ہیں۔ اس طرح کمپنی اور نجی اسپتال ہوشربا منافع کمارہے ہیں جبکہ بھارت میں نجی اسپتالوں میں ویکسین کی قیمت 1500 روپے مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کی جانب سے روسی ویکسین کی 2خوراکوں کی قیمت 8439 روپے تجویز کی گئی تھی جسے نظر انداز کرکے من مانی قیمت وصول کی جارہی ہے اور متوسط طبقے کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس سے مستفید ہوسکے۔

برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین میں فارماسوٹیکل کمپنیاں مقامی سطح پر کورونا ویکسین تیار کررہی ہیں لیکن یہ ممالک دنیا کے دوسرے ممالک کو پیٹنٹ کے نام پر ویکسین کی تیاری میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔ بھارت بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں مقامی سطح پر کورونا ویکسین تیار کی جارہی ہے ۔بھارت ماہانہ 85 ملین کووڈ ویکسین تیار کررہا ہے جو نہ صرف بھارت میں کئی ملین لوگوں کو مفت لگائی جاچکی ہے بلکہ ویکسین کے حصول کیلئے بھارت کو غیر ملکی آرڈرز بھی مل رہے ہیں۔یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں 700 سے زائد فارماسوٹیکل کمپنیاں ہیں لیکن کسی کمپنی نے کورونا ویکسین کی مقامی طور پر تیاری کیلئے کوششیں نہیں کیں کیونکہ ویکسین امپورٹ کرکے اور من مانی قیمت وصول کرکے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا شمار ایٹمی طاقت کے حامل چند ممالک میں ہوتا ہے۔ کچھ روز قبل یوم پاکستان پر ہونے والی پریڈ میں ہم اپنے بلیسٹک میزائلوں کا مظاہرہ کرتے نظر آئے لیکن افسوس کہ آزادی کے 70 سال ہونے کے باوجود پاکستان ابھی تک نہ صرف کورونا بلکہ پولیو اور دیگر حفاظتی ٹیکوں کی کوئی ویکسین مقامی طور پر تیار نہیں کرسکا۔

وزیراعظم کا کورونا کی تیسری لہر کو خطرناک قرار دینا اور عوام کو ایس او پیز پر عمل کرنے کی تنبیہ کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونا کافی نہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے اور ماسک لگانے سے کورونا کے پھیلائو کو کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے مگر کورونا سے نجات اُسی وقت ممکن ہے جب ملک کے ہر فرد کو کورونا سے بچائو کی ویکسین لگائی جائے لہٰذاحکومت جلد از جلد ہر شہری کو ویکسین کی فراہمی یقینی بنائے بصورت دیگر اگر کورونا کی شرح میں مزید اضافہ ہوا تو برطانیہ کی طرح دنیا کے دوسرے ممالک بھی پاکستانیوں کی آمد پر پابندی عائد کرسکتے ہیں اور اس طرح پاکستان دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا۔

تازہ ترین