• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت جہاں کشمیر کا تنازع پچھلے73سال سے دنیا کا نمبر ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ، وہیں افغانستان میں امن اور وہاں کے عوام کی مر ضی کے مطابق حکومت کا قیام بھی اس وقت سب سے خطرناک معاملہ بن گیا ہے۔ افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جس آگ میں جل رہا ہے اس نے پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگادیا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں امن خطے میں امن کی ضمانت ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان اہم کردار ادا کررہا ہےمگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی اس ملک میں امن اور استحکام کے اصل دشمن بھارت کو نہیں پہچان رہے جس دن ان ملکوں نے نیک نیتی کے ساتھ اپنی آ نکھیں کھول لیں تو ا نہیں ایک پر امن افغانستان کو سامنے لانے میں معمولی دشواری کا بھی سامنا نہیں ہوگا۔ بھارت نے اس ملک میں دہشت گردی کی نرسری قائم کر رکھی ہے، جہاں سے پاکستان میں بلوچستان اور کراچی کے حالات کو خراب کرنے کے لئے دہشت گردو ں کی مدد کی جاتی ہے جس کی بھاری قیمت پاکستان کے عوام اور سیکورٹی اداروں نے ادا کی ہے جن کی لازوال قر بانیوں اور ملک میں کڑے آپریشن سے ان دونوں مقامات پر خاصی حد تک امن قائم ہواہے مگر بھارت آج بھی اس امن کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہا۔پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی ادارے آج بھی پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ دنیا کے اس آگ میں جلتے ملک میں امن قائم کرنے کی مثبت کوشش کررہے ہیں جس کی مثال، امریکا طالبان معاہدہ ہے جوپاکستان نے کرایا۔پاک افغان بارڈر پر مارکیٹوں کا قیام عمل میں لانا ، ہر مشکل وقت میں افغان حکومت کی حمایت کرنا مگر اس کے باوجود پاکستان کے جذبے کی قدر نہیں کی گئی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سوچنا ہوگا کہ انہوں نے افغانستان سے روسی انخلا کے بعد اس ملک کی ترقی اور بہتری کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی، اسی لئے آج بھی کابل سے آگے نہ تو غیر ملکی اور نہ ہی ملکی سیکورٹی اداروں کا کنٹرول ہے۔ اب ایک بار پھر ا فغانستان میں امن کے قیام کے لئے پاکستان اہم کردار ادا کررہا ہے۔اس وقت جوبائیڈن انتظامیہ افغانستان پر وسیع تر امن مذاکرات کی کوششیں کررہی ہے ۔طالبان نے واشنگٹن کو افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے انخلا کیلئے یکم مئی تک کی تاریخ دی ہےاورمعاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یکم مئی سے آگے امریکی فوجیوں کا قیام دراصل معاہدے کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔ طالبان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ہماری توجہ افغانستان کے مسئلے کے حل اور پرامن تصفیہ پر مرکوز ہے تاکہ ایک سیاسی روڈ میپ تک پہنچیں اور مستقل اور جامع جنگ بندی ہوسکے۔ان کا کہنا ہے کہ طالبان اسلامی حکومت کے مطالبے پر قائم ہیں۔دوسری جانب فوجی انخلا کے حوالے سےامریکی صدر جو بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں لیکن یکم مئی تک امریکی افواج کے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنے کی راہ میں کچھ عملی دشواریاں موجود ہیں۔ اس صورت حال سے اس ملک میں ایک بار پھر حالات خراب ہونے کا اندیشہ اور خطرات بڑھ رہے ہیں جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں،حالانکہ پاکستان پرامن، خودمختار اور خوشحال افغانستان کا سب سے بڑا حامی ہے۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ افغانستان میں امن اور ترقی کی خواہش پاکستان سے زیادہ کسی کو نہیں ہوسکتی۔افغانستان امن عمل اس وقت اہم اور فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ۔ہر کسی کو صبر، عزم اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور سمجھوتے کے جذبے کو آگے بڑھانا ہو گا۔افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کی واپسی کے بعد طالبان اور القاعدہ کے آگے آنے کے امکانات ہیں، اس لئے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو وہاں سےجانے سے پہلے ایک ایسی حکومت لانا ہوگی جو عوام کی امنگوں کی ترجمان ہو۔ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن کیلئے عالمی طاقتوں کوپاکستان پر مکمل بھروسا اور اعتماد کرنا ہوگا ۔ اس کے بغیر افغانستان میں حالات کی بہتری کیلئے کی جانے والی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ بھارت کو لگام دینا ہوگی جو اس خطے اور افغانستان میں امن کا سب سےبڑا دشمن ہے جس نے ہمیشہ وہاں دہشت گردوں کی سر پرستی کی۔دنیا کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امن اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر اول دستےکا کردار ادا کیا اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے ۔ اس لئے اب دنیا کو پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔بھارت کا چہرہ کشمیر اور افغانستان میں بے نقاب ہوچکا ہے۔افغانستان میں امن کے لئے افغان عوام کی مرضی اور امنگوں کے مطابق انتخابات کی ضرورت ہے۔ حامد کرزئی اور عبدﷲ عبدﷲ جیسے کرداروں سے وہاں کے عوام بے زار اور تنگ آچکے ہیں۔

تازہ ترین