کراچی(اسٹاف رپورٹر/ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ نے غیر قانونی شادی ہالز گرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کی لاعلمی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کمشنر کو فارغ کریں، شہر سے لاعلم کہاں سے امپورٹ کیا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ فیروز آباد میں مختار کار پہلی مرتبہ سن رہا ہوں، اگر یہاں مختار کار شہر کو آپریٹ کررہا ہے تو پھر شہر گیا، اب یہاں کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی، کسی کو شہر کی پروا ہے نہ فکر،مختار کار آگیا تو نو مور کراچی، وزیر اعلی سندھ کو کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں، کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے آپ لوگوں نے؟ اب آنکھیں کھولنے کا ٹائم آگیا، یہ کیپٹل سٹی رہا ہے، کیا بنادیا اس شہر کو؟،ڈی جی ایس بی سی اے کو نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے بلڈر کو نوٹس جاری کردیے اور عمارت کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کورنگی کراسنگ میں شادی ہالز سے متعلق کورنگی شادی ہالز ایسوسی ایشن کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ایس بی سی اے کو کس نے اختیار دیا کہ وہ رہائشی کو کمرشل میں تبدیل کرے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نےانور منصور خان ایڈووکیٹ سے کہا کہ یہ سب جعلی دستاویزات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایس بی سی اے کورہائشی سے کمرشل کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ انور منصور خان ایڈووکیٹ نے موقف دیا مین سڑک پر لوگ رہنا پسند نہیں کرتے۔ اسی لیے مین سڑک کے اطراف کو کمرشل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ مفروضا ہے سب، مطلب یہ نہیں کہ سب کمرشل کردیں۔ انور منصور خان نے کہا ایک ہفتے کی مہلت دے دیں، مطمئن کر دیں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ جائیں اور غیر قانونی شادی ہالز گرائیں۔ پورے کراچی میں شادی ہالز بن رہے ہیں۔ کسی بھی سڑک پر جائیں شادی ہالز ملیں گے۔بیشتر رفاعی پلاٹوں پر بنائے گئے۔ جس کا کمشنر کراچی نے اعتراف کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تو آپ کمشنر کراچی ہیں جائیں اور سب کو ختم کریں۔ عدالت نے سماعت آج جمعے تک ملتوی کردی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل لارجر بنچ نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کی لاعلمی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ انہیں کہاں سے اور کس نے امپورٹ کیا ہے؟ انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، کل کوئی سپریم کورٹ کی عمارت پر اور پرسوں وزیر اعلیٰ ہائوس پر آکر حق دعویٰ کرے گا تو کیا آپ اسے الاٹ کر دیں گے؟ ہمیں سب معلوم ہے کہ آپ لوگ کمپوٹرائزڈ ریکارڈ مرتب کیوں نہیں کرتے۔ کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو معلوم نہیں کہ ان کے خلاف کتنے نیب ریفرنس بنیں گے، یہ ربر اسٹیمپ کی مانند ہیں بس ان کی جگہ کوئی قابل افسر ہوتا ایک منٹ میں ہسٹری بتا دیتا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل، کمشنر کراچی کی مہلت کی استدعا منظور کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پوری بلڈنگ ہی نالے پر کھڑی ہے۔ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں۔ اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہاں ہیں۔ کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں آپ ہمارے سامنے آئیں۔ ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو نے بتایا سٹرک کی ری الاٹمنٹ سے پلاٹ نکلا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیاپھر بیچ دیں گے۔ کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے۔ سپریم کورٹ کا لے آئوٹ پلان لے آئیں گے تو ہم کیا کریں گے۔ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے آپ لوگ۔ کل وزیراعلی ہاؤس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے آپ لوگ۔ ہمارے سامنے ایسی غلط باتیں مت کریں، سب معلوم ہے۔ کوئی کمپوٹرائز ریکارڈ کیوں مرتب نہیں کرتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے اے بلاک سندھی مسلم سوسائٹی میں ہے ہی نہیں۔ کیا ہم کراچی کے بارے میں نہیں جانتے؟ یہ سب کچھ غیر قانونی ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے پراظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کیوں بلڈر کا دفاع کرنے میں لگے ہیں۔ سب پیسے لے کر کام ہو رہا ہے۔ کیا نہیں معلوم کون سندھی مسلم سوسائٹی میں نقشے بنا رہا ہے؟ یہاں آپ کام کرنے کی بجائے بلڈر کا دفاع کر رہے ہیں۔ رپورٹ دیں کہ عمارت کی زمین کی اصل پوزیشن کیا ہے۔کیا کراچی کی ہسٹری بدل گئی۔ یہ زمین وفاقی حکومت کی زمین تھی۔ یہ وفاقی سٹی تھا، پتہ نہیں کیا چل رہا ہے یہاں۔ ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ مختیار کار نے زمین الاٹ کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کراچی کو مختاروں میں بانٹ دیا کیا؟ کراچی میں مختار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے شہری علاقوں کا ریونیو سے کیا تعلق؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگر یہاں مختار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا۔ یہاں تو اب کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی۔ فیروز آباد میں مختار کار پہلی مرتبہ سن رہا ہوں۔ کسی کو شہر کی پروا نہیں، کسی کو فکر نہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو سے مکالمہ میں کہا کہ کس دنیا میں رہ رہے ہیں آپ لوگ ؟ آپ کو شہر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی نوید شیخ پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کیا کراچی کی تاریخ پڑھی ہے۔ یہاں سماعت کرنا بے کار ہے ہمارا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے دنیا کو معلوم ہے کون چلا رہا ہے ایس بی سی اے۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ ڈی جی ایس بی سی اے ہیں۔ ہر مہینہ ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے۔ سب رجسٹرار آفس، ایس بی سی اے اور ریونیو میں سب سے زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے۔ سارا معلوم ہے کیا ہو رہا ہے۔ سرکاری ادارہ کا حال برا ہے، ان اداروں کا۔ آپ کچھ اعتراض کریں گے تو آپ کو ہٹا دیا جائے گا۔ سلمان طالب الدین نے موقف دیا بلڈر کو بلا کر پوچھ لیا جائے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے یہاں ایس بی سی اے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے۔ 50 سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟ بتائیں، کیسے اچانک لیز کردی جاتی ہے؟ ابھی نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ صاحب یہ کیا ہو رہا ہے۔ فیروز آباد میں مختار کار تعینات کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے وزیراعلی سندھ کو کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے موقف دیا کل تک کا وقت دے دیجئے، وضاحت کر دوں گا۔ یہ ایڈمنسٹریٹو ایشو ہے، عدالت کو مطمئن کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھوڑی دیر میں مختار کار ڈی ایچ اے بھی آنے والا ہے چیف جسٹس کے اس مکالمے پر کمرہ عدالت میں قہقہے بھی لگ گئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جب یہاں مختار کار ہے تو پھر ڈی ایچ اے میں بھی تو مختار کار ہوگا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو وضاحت کے لئے مہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے، آپ لوگوں نے؟ اب آنکھیں کھولنے کا ٹائم آگیا۔ یہ کیپٹل سٹی رہا ہے، کیا بنا دیا اس شہر کو؟ ایڈووکیٹ جنرل صاحب، آپ ایسی بات کر رہے ہیں جیسے کراچی کو نہیں جانتے۔ کمشنر کراچی صاحب، کیا فیروز آباد کے بارے میں آپ کچھ جانتے ہیں؟ آپ کو معلوم ہی نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ کمشنر کراچی کو تو شہر کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ افسوس سے ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے۔ کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو معلوم نہیں کتنے نیب ریفرنس ان کیخلاف بنیں گے۔ یہ ربر اسٹیمپ ہیں بس۔ کوئی قابل افسر ہوتا ایک منٹ میں ہسٹری بتا دیتا۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ سارے ہی اس قسم کے لوگ رکھ لئے۔ یہ ہمارے لئے بڑی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں کو کتنی مشکلات ہوتی ہونگی؟ وزیراعلی سندھ سے رپورٹ مانگی تھی، کچھ ذکر ہی نہیں۔ سی ایم صاحب، نے تو کہہ دیا سب اچھا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سے کہا تھا کہ بتائیں شہر کی بہتری کیسے کر سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے لمبی لمبی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت ہے۔